مہک اٹھے سحرسحر ہیں نکہتوں کےسلسلے

مہک اٹھے سحرسحر ہیں نکہتوں کےسلسلے

نکھر گئے نگر نگر ہیں مدحتوں کےسلسلے


یہ کس نگارِ خیر کی ثنائے نور نور ہے

کہ حرف سب قمر قمر ہیں طلعتوں کےسلسلے


رہے ہیں رات رات بھریہ کس کے انتظار میں

خیامِ جاں، نظر نظر ہیں رتجگوں کے سلسلے


ترے خیال و خواب میں رہا کروں جیا کروں

نشانِ پا ڈگر ڈگر ہیں منزلوں کے سلسلے


وہی تو نیک نام ہیں مٹے جو تیرے نام پر

زماں زماں بشر بشر ہیں رفعتوں کے سلسلے


ترے ہی ذکرِ نُور کی ہیں برکتیں سمن سمن

چمن چمن شجر شجر ہیں نزہتوں کے سلسلے


غلامئ رسول میں نہاں نویدِ فتح ہے

سفر سفر ظفر ظفر ہیں نصرتوں کےسلسلے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

ہیں ارمان دل میں ہمارے ہزاروں

ترے خواب کی راہ تکتی ہیں آنکھیں

لوحِ محفوظ پہ قرآن کی آیت چمکی

کتنا پُرکیف سا اُس وقت سماں ہوتا ہے

خدا دی سب خدائی مل گئی اے

دردنداں کی ضیا ہے جو ہمارے گھر میں

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

ایسا شہ پارہ مجسم کر دیا خلاق نے

مُنہ فق ہے جس کے سامنے ماہِ تمام کا

فاصلے جتنے ہیں سرکار مٹائیں گے ضرور