لوحِ محفوظ پہ قرآن کی آیت چمکی
تب لبِ عیسیٰ پہ احمد کی بشارت چمکی
عرش والوں میں گئے عرش کی عظمت نکھری
فرش والوں میں رہے فرش کی قسمت چمکی
انبیاء اور رسل کہہ چکے نفسی نفسی
روزِ محشر مرے آقا کی شفاعت چمکی
یا نبی کہہ کے مخاطب کیا قرآں میں انہیں
غیب دانی پہ خود اللہ کی شہادت چمکی
رب نے تخلیق نہ فرمایا پھر ان جیسا کوئی
ایک ہی ہو مرا محبوب یہ حکمت چمکی
مصطفیٰ کے قدمِ پاک کی یہ برکت ہے
تُو مدینہ بنا، یثرب تری صورت چمکی
سدرہ پر آکے رکے حضرت جبریلِ امیں
اس سے آگے مرے سرکار کی ہمت چمکی
حسن یوسف کی چمک مصر کے محلوں میں رہی
دونوں عالم میں مرے آقا کی طلعت چمکی
اُمتیں اور رسولوں کی ہیں دنیا میں مگر
فضلِ حق سے مرے سرکار کی اُمت چمکی
بوحنیفہ کا لقب پا کے بہت خوش ہیں امام
بیٹی کی سوجھ سے قرآں کی شریعت چمکی
غوثِ اعظم کو ملی طیبہ سے نائب کی سند
خواجہ کے گھر بھی اسی فیض کی برکت چمکی
جوگی جے پال کے سر پر بجی خواجہ کی کھڑاؤں
دیکھو دیکھو مرے خواجہ کی کرامت چمکی
ایک ویران سا خطّہ تھا جو ریگستاں کا
خواجہ کیا آئے کہ اجمیر کی صورت چمکی
پیر سے بڑھ کے کوئی پیر نہیں میرے لیے
جس نے یہ جان لیا اس کی ارادت چمکی
فیضِ خواجہ سے بریلی کو ملا ہے اتنا
رضا کے روپ میں خواجہ کی طریقت چمکی
نظمی جی آپ کو طیبہ سے ملی بھیک ایسی
شخصیت آپ کی نعتوں کی بدولت چمکی
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا