مظہرِ حسنِ ازل ہے قدِ زیبا تیرا
آئنہ دیکھ کے حیران ہے چہرہ تیرا
زیرِ ممنون ہوا عرشِ معلّیٰ تیرا
محرمِ راز بنا بلبلِ سدرہ تیرا
کوئی کیا جانے بھلا کیسا ہے رتبہ تیرا
عرشِ اعظم سے بھی اونچا ہے پھریرا تیرا
کس بلندی پہ ہے رتبہ شہِ والا تیرا
با ادب چومتے جبریل ہیں تلوا تیرا
نازشِ خلدِ بریں روضۂ اعلیٰ تیرا
مشک و عنبر میں نہایا ہوا رستہ تیرا
پیکرِ خُلق بہت خوب طریقہ تیرا
تیرا کردار حسیں، طور نرالا تیرا
عشق میں ڈوب کے پڑھتا ہوں وظیفہ تیرا
نارِ دوزخ سے بچائے گا حوالہ تیرا
سب کا سردار ہے جب گود کا پالا تیرا
اوج پر کیوں نہ حلیمہؔ ہو نصیبا تیرا
مغفرت کے لیے کافی ہے سہارا تیرا
پلّہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسہ تیرا
کوئی دنیا میں کہاں تجھ سا کریم اور شفیق
فکرِ امّت میں سدا دل ہے دھڑکتا تیرا
رنج و آلام ہمارے سبھی کافور ہوئے
نام جب ہم نے لیا جانِ مسیحا تیرا
رب نے بخشے ہیں دو عالم کے خزانے تجھ کو
فیض بٹتا ہے جہاں میں شہِ والا تیرا
دین کے واسطے گردن ہے کٹائی جس نے
وہ کوئی اور نہیں، وہ ہے نواسہ تیرا
دعوتِ دیں کے لیے جاں کی لگادی بازی
عزم و ہمّت کی ہے چٹّان کلیجہ تیرا
پیروی طرزِ رضا کی تو کیا کر احمدؔ
دیکھنا ہوگا یہ دیوان انوکھا تیرا
شاعر کا نام :- مولانا طفیل احمد مصباحی
کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت