میں جب درِ رسول پہ جا کر مچل گیا

میں جب درِ رسول پہ جا کر مچل گیا

یکسر مری حیات کا نقشہ بدل گیا


چشمِ کرم حضور کی جس پر بھی ہو گئی

دونوں جہاں کی آفتوں سے وہ نکل گیا


شہرِ نبی کی برکتیں دیکھو ہیں کس قدر

جو بھی گیا ہے اس کا مقدر بدل گیا


شاہوں سے بڑھ کے مرتبہ ایسے گدا کا ہے

سلطانِ دوجہاں کے جو ٹکڑوں پہ پل گیا


بیڑا تھا ڈوبنے ہی کو طوفان میں مرا

نظریں اٹھیں حضور کی فوراً سنبھل گیا


قسمت میں کاش! ایسا بھی ہو کہہ اٹھیں سبھی

آصف کا جالیوں کے قریں دم نکل گیا

شاعر کا نام :- محمد آصف قادری

کتاب کا نام :- مہرِحرا

دیگر کلام

اٹھا کر ہاتھ لوگوں میں دُعائیں بانٹ دیتا ہے

دلدار جے راضی ہوجاوے دنیا نوں مناؤن دی لوڑ نئیں

آقاؐ کی ثنا مدحِ نبیؐ آیۂ توصیف

اس کی معراجِ بلندی پہ عبادت ہوجائے

خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے

محمد جہیا کوئی آیا ناں آوناں

ایتھے اج کملی والے دا ذکر اذکار ہووے گا

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

ہر تڑپ دل کی وجہِ سکوں ہے

مہک رہی ہیں فضائیں حضور آئے ہیں