میرا آقا بھی ہَے وہ رہبرِغمخوار بھی ہَے

میرا آقا بھی ہَے وہ رہبرِغمخوار بھی ہَے

میری ہر چیز کا مالک بھی ہَے مختار بھی ہَے


شاہِ افلاک بھی ہَے سیّدِ ابرار بھی ہَے

حق کا محبُوب بھی ہے حق کا پرستار بھی ہَے


حق کا بندہ بھی ہَے اور محرمِ اسرار بھی ہَے

دونوں عالم کی حقیقت سے خبردار بھی ہَے


تِشنگی روحِ دو عَالم کی بجھانے والا

جُوئے رحمت بھی ہَے اور ابرِ گہربار بھی ہَے


اعظم اس پیکرِ رحمت سے ہَے نسبت مُجھ کو

دردمندوں کا جو مونس بھی ہے غمخوار بھی ہَے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

میرے کملی والے کی شان ہی نرالی ہے

ہم کھولتے ہیں راز کہ کس سے ہے کیا مراد

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

سبز گنبد کی فضاؤں کا سفر مانگتے ہیں

نور کی شاخِ دلربا اصغر

نعت کے صحیفے ہیں

یاالہٰی رحم فرما مصطفٰی کے واسطے

الطاف تیرے خَلق یہ ہیں عام اے کریم

دلِ عشاق شہرِ نور سے آیا نہیں کرتے