سبز گنبد کی فضاؤں کا سفر مانگتے ہیں

سبز گنبد کی فضاؤں کا سفر مانگتے ہیں

ہم کسی روز مدینے کی سحر مانگتے ہیں


نعت بُنتے ہوئے آنکھوں میں گہر آ جائیں

اپنی مدحت سے دعاؤں میں اثر مانگتے ہیں


ہر طرف مولا کے ہم نقشِ کفِ پا دیکھیں

جس پہ حسنین کا جلوہ ہو وہ در مانگتے ہیں


دوڑ کر اُن کے اشارے پہ شجر آ جاتے

اُن کو شاخوں میں چھپاتے وہ شجر مانگتے ہیں


اپنی قسمت میں بھی سرکار کی بستی لکھ دے

جس میں سرکار کا مسکن تھا وہ در مانگتے ہیں


دنیا داروں سے پزیرائی کا لالچ کب ہے

اپنے آقا سے پزیرائی کا زر مانگتے ہیں


جب ارادہ ہو غزل کا تو رقم ہو مدحت

ایسا دلدار کی مدحت کا ہنر مانگتے ہیں


کب سے میلاد منانے کے لیے دنیا میں

جو بھی آکاش کی مانند ہو گھر مانگتے ہیں


رب سے ناموسِ رسالت کے لیے ہم قائم

جس میں للکار کی جرات ہو جگر مانگتے ہیں

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

زیست میں اپنی بہاراں کیجئے

احمدِ مجتبیٰ سے مطلب ہے

لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں

اگر سوئے طیبہ نہ جائے گی ہستی

ہر آن ملی سب کو دوا میرے نبی سے

وہ گھر وہ کوچہ وہ قریہ مکانِ رحمت ہے

ربِ کعبہ نے کر دی عطا روشنی

تارِ ربابِ دل میں نبی کی ہیں مِدحتیں

ہو جائے دل کا دشت بھی گلزار ،یا نبی

آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے