مرا مدعا ہیں مدینے کی راہیں

مرا مدعا ہیں مدینے کی راہیں

مرا آسرا ہیں مدینے کی راہیں


پہنچ جانا منزل پہ مشکل نہیں ہے

کہ خود رہنما ہیں مدینے کی راہیں


مری مشکلیں مشکلیں کب رہی ہیں

کہ مشکل کشا ہیں مدینے کی راہیں


اِنھیں سے پہنچ جاؤں گا میں خُدا تک

کہ راہِ خُدا ہیں مدینے کی راہیں


نہ آنکھوں سے ہیں دُور حُسنِ تصور

نہ دل سے جُدا ہیں مدینے کی راہیں


ہر اک ذرّے میں سو گلستاں چُھپے ہیں

عجب پُر فزا ہیں مدینے کی راہیں


مجھے کھینچے لیتی ہیں بہزاؔد مضطر

نہ پوچھو کہ کیا ہیں مدینے کی راہیں

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

فضا میں اُن کے ہونٹوں کی صدا ہے

یا نبی جی آ نبی جی

وہ دن قریب ہے کہ مدینے کو جاؤں گا،

الہامِ نعت ہوتا ہے چاہت کے نور سے

تو روشنی کا پھول ہے یا ایہاا لرسولؐ

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے

کتنی صدیوں سے چمکتا تھا ہمارا سورج

سرکارِ مدینہ کے در سے اے داور محشر! کیا مانگوں

جنت دی تصویر مدینہ

ٹُوٹے ہُوئے دِلوں کے سہارے حضور ہیں