مِل گئے گر اُن کی رحمت کے نقوش

مِل گئے گر اُن کی رحمت کے نقوش

نقش ہیں یہ راہِ جنت کے نقوش


ہو نہیں سکتا مسلماں وہ کبھی

ہوں اگر نہ اُن کی اُلفت کے نقوش


ہر زمانے کی زباں میں پاؤگے

تم مرے آقا کی مدحت کے نقوش


حُسن خود ہی دیکھ کر حیران ہے

رب کے پیارے کی ملاحت کے نقوش


بے شُبہ جُملہ جہانوں کے لئے

ہیں مرے آقا کی مدحت کے نقوش


عرش سے بھی پار پہنچے لامکاں

چھا گئے آقا کی رِفعت کے نقوش


بس خیالی روشنی مغرب کی ہے

ہیں سراسر اِس میں ظُلمت کے نقوش


سیرتِ خیرالوریٰ اپنائیے

اِس میں ہیں انساں کی عظمت کے نقوش


میرے آقا کے سبھی اصحاب ہیں

منزلِ رُشد و ہدایت کے نقوش


بوبکر، فاروق، عثمان و علی

خوب ہیں اِن کی خلافت کے نقوش


دیکھ لے آکر درِ خیرالوریٰ

دیکھنے ہوں جس کو جنت کے نقوش


ذکرِ آقا کو وظیفہ کیجیے

زندگی میں ہوں گے راحت کے نقوش


اُن کے دامن سے رہے وابستگی

حشر تک ہوں ساتھ نسبت کے نقوش


در پہ پھر مرزا کو بُلوا لیجئے

یا نبی مِٹ جائیں فُرقت کے نقوش

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

جو بزمِ لامکاں پہنچا نبی میرا نبی میرا

سرورِ ہر دوسرا شاہِ اُمم

مرحبا کیا شان کیا رُتبہ ترا

جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی

شان ہے آقا تُمہاری لاجواب

غلام اُن کے در کا نمایاں نمایاں

مدینے کا سفر ہو اور میں ہُوں

نور والے حضور نورانی

رکھتے ہیں میرے آقا سارے جہاں کی خبریں

لُطفِ خیرالانام جب ہوگا