مجھے بھی مل گئی کچھ خاک آستانے کی

مجھے بھی مل گئی کچھ خاک آستانے کی

فضا مہک گئی میرے غریب خانے کی


چلا میں گھر سے تو دنیا کے غم بھی ساتھ چلے

نہ گفتگو کی سکت تھی نہ مسکرانے کی


حدودِ طیبہ کا آغاز جس جگہ سے ہوا

وہیں سے لوٹ گئیں گردشیں زمانے کی


قدم قدم پہ جھکی جارہی تھی لوح جبیں

ہر ایک ذرّ ے میں خوشبو تھی آستانے کی


جمالِ خضرا میں یُوں کھو گیا وجودِ نظر

نہ مل سکی مجھے فرصت ہی سر جھکانے کی


مگر حضورﷺ کے روضے پہ شرم عصیاں سے

نہ ہوسکی مجھے جراءت نظر اٹھانے کی


کرم تو پہلے بھی اقباؔل بے شمار ہوئے

مگر یہ خاص نوازش مِرے خدا نے کی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

دعا ہے زندگی جب تک مری سفر میں رہے

جادہ شناسِ منزلِ وحدت صلّ اللہ علیہ وسلّم

ہوا جلوہ فرما نگارِ مدینہ

تاریکیوں کا دور تھا ، کوہ و دمن سیاہ

مَیں، اور مجھ کو اور کسی دِلربا سے عشق؟

جب ہجوم غم میں دل گھبرائے ہے

سرورِ دو جہاں کو ہمارا سلام

طیبہ دے پر کیف منظر تے بہاراں نوں سلام

وہ بندۂ خاص خدا کے ہیں اور ان کی ساری خدائی ہے

شام صبح کرے ذکر خُدا، سوہنے عربی دا