مصطَفٰے کا کرم ہوگیا ہے

مصطَفٰے کا کرم ہوگیا ہے،دل خوشی سے مِرا جھومتا ہے

اِذن پھر حاضِری کا ملا ہے،قافِلہ سُوئے طیبہ چلا ہے


کوچ کا وقت اب آچکا ہے،قافِلہ پھر مدینے چلا ہے

منہ دکھاؤں گا کس طَرح ان کو ،پاس حُسنِ عمل میرے کیا ہے!


میں مدینے کے قابِل نہیں ہوں ،بس نبی نے کرم کردیا ہے

بوجھ عصیاں کا سر پر دھرا ہے،بس گناہوں کا ہی سلسلہ ہے


لُوٹنے کو بہارِ مدینہ، چومنے کو غُبارِ مدینہ

اِذن سے تاجدارِ مدینہ، تیرے تیرا گدا چل پڑا ہے


مُلتجَی تجھ سے ہے اِک کمینہ، مانگتا ہے یہ قفلِ مدینہ

دے کے دیدو اِسے استِقامت، پَست ہمّت یہ کم حوصَلہ ہے


سُوئے طیبہ سفر کرنے والو، لب پہ قُفلِ مدینہ لگالو

آنکھ شرم وحیا سے جھکالو، بس اِسی میں تمھارا بھلا ہے


حاضِری کو ملے چند لمحے بج گئے کوچ کے آہ! ڈنکے

ہے عَجب وَصل وفُرقَت کا سنگم،ہجر کے غم میں دل رو رہا ہے


سَیِّدی مصطَفٰے جانِ رَحمت!کیجئے مجھ پہ چشمِ عنایت

دور ہوجائے دِل کی قَساوَت( ) تجھ کو صِدّیق کا واسِطہ ہے


یانبی! مجرم آئے ہوئے ہیں ،بارِ عِصیاں اُٹھائے ہوئے ہیں

آس تجھ پر لگائے ہوئے ہیں ،تیری رَحمت ہی کا آسرا ہے


میں نے جب بھی عبادت کا سوچا، نَفس نے فوراً اُس دم دَبوچا

نیکیوں کا نہیں سلسلہ کچھ، بس گناہوں میں ہی دل پھنسا ہے


ہے ہَوَس مال کی، قلب بھٹکا،ہر نَفَس ہی ہے بس حُبِّ دنیا

اپنی الفت کا ساغَر پِلادو ،یاحبیبِ خدا التجاء ہے


حُبِّ دنیائے مُردار دِل میں ،کرچکی گھر ہے سرکار دِل میں

تم جو آجاؤ دِلدار دِل میں ،بس ٹلی دِل سے پھر یہ بلا ہے


یانبی! آپ کے عاشِقوں کو، آپ کی دیدکے طالِبوں کو

اپنا جلوہ دکھادیجئے نا، ان بِچاروں کو ارماں بڑا ہے


عُمر عطّارؔباون برس کی، ہے ہَوَس تجھ کو دُنیا کی پھر بھی

اب تُو جی جی کے کتنا جئے گا،وقتِ رِحلَت قریب آچکا ہے


قافِلہ ’’چل مدینہ‘‘ کاآقا، چل پڑا جانبِ طیبہ مولیٰ

تیرے عُشّاق کے پیچھے پیچھے، تیرا عطارؔ بھی آرہا ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

خمیر حضرت آدم ابھی نہ اٹھا تھا

جو ضَوفشاں ہے ضُحٰی کی بارش

اک سوہنا مدینے دا من ٹھار بڑا سوہنا

معیارِ اہلِ دین ہےاُسوہ حضور ﷺکا

روز و شب ہم مدحت خیر الوراﷺ کرتے رہے

لب پر ہیں مرے سیدِ ابرار کی باتیں

میرے الم نوں مٹا دینا یا رسول اللہ

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

ہر اک بات امی لقب جانتے ہیں