نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

کہ میرے سر پہ مدینے کا ہو غبار حضورؐ


نگاہ دید سے محرُوم دل تصّرف سے

قرار کِس طرح آئے نہیں قرار حضوؐر


بساطِ فِکر ہے محدُود وصف لا محدُود

نہ ہو سکیں ہیں نہ کر پاؤں گا شمار حضُورؐ


مجھے بھی کاش وہ مدحت کا شوق دے جس نے

دئے ہیں آپ کو اوصاف بے شمار حضوؐر


حضورؐ آپ کا صدقہ ہے کارگاہِ وجُود

اسی سے زیست کا قائم ہے اعتبار حضوؐر


حضوؐر آپؐ کے زیرِ قدم ہیں غیب و شہُود

کہ شش جہات کے ہیں مرکزِ قرار حضوؐر


کُچھ اس طرح سے مجھے اذنِ باریابی دیں

کہ آؤں آپؐ کے قدموں میں بار بار حضوؐر

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

مِری آنکھوں کی ضد ہے یا مکینِ گنبدِِ خضرا

جس نے عشق شہ دیں سینے میں پالا ہوگا

کی دسّاں میں شان پیارے زُلفاں دے

دیارِ دل میں تیرے ذِکر سے نعتیں اُترتی ہیں

اے مَدینے کے تاجدار سلام

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

دیکھیں گے مدینہ ترے گلزار کا موسم

رشکِ قمر ہُوں رنگ رُخِ آفتاب ہُوں

سرکارِ دو عالم کا اگر در نہیں دیکھا

مُلّا کی قیل و قال غلط، گفتگو غلط