نعرۂ صلِ علیٰ کے جشنِ سرور کے چراغ

نعرۂ صلِ علیٰ کے جشنِ سرور کے چراغ

جل رہے ہیں چار سو عشقِ پیمبر کے چراغ


ہو رہی ہیں آسماں پر انجمن آرائیاں

پُر ضیا کرتے ہیں محفل ماہ و اختر کے چراغ


سج گئی ہے بزمِ گیتی آمدِ سرکار سے

جھلملائیں کو بکو پر کیف منظر کے چراغ


ہو گئے پر نور فیضانِ پیمبر کے طفیل

اے حلیمہ سعدیہ تیرے مقدر کے چراغ


صبحِ نو توحید کی آئی چلی بادِ سحر

بجھ گئے ایوانِ باطل میں سبھی شر کے چراغ


ختم ہو سکتی نہیں حُبِ نبیؐ کی روشنی

ہیں منور چار سو عشاقِ سرور کے چراغ


خوفِ رب، عشقِ نبیؐ، حسنِ عمل، توبہ، نماز

اہلِ ایماں کے لیے ہیں قبر و محشر کے چراغ


اہلِ حق کو دے رہے ہیں عزمِ محکم کی ضیا

کربلا میں اب بھی روشن ہیں بہتّر کے چراغ


چشمِ رحمت ہوگی احسؔن ایک دن سرکار کی

جگمگائیں گے تمھارے بھی مقدر کے چراغ

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

وہ ایک نام جو آب حیات ہے لوگو

اوہدے کول دکھاں دا حل اے

نبی کا کوئی ہمسر ہے نہ ان کا ہے کوئی ثانی

دل جھوم اٹھا اَور چلنے لگی

مصطفیٰ صلِّ علیٰ سید و سرور کے طفیل

جب وہ اذن سوال دیتے ہیں

اُن کی یاد آئی تو بھر آئے سحابِ مژگاں

جس بندۂ مومن پہ ہے فیضانِ نبیؐ خاص

کراں فریاد میں تڑپاں تے روواں یارسول اللہ

فیضانِ محبت دنیا لئی منشور مدینے والے دا