پست بے انتہا ہے میرا شعور

پست بے انتہا ہے میرا شعور

زیرِ انوارِ نعت کتنے ہی طور


تیری مدحت کے ہر تخیّل میں

روشنی روشنی ہے نور ہی نور


جب سے توفیقِ نعت مجھ کو ملی

جسم و جاں ہیں مرے بھی محوِ سرور


پردہ پوشی حضورؐ نے کی ہے

پیشِ سرکارؐ جب ہوئے ہیں قصور


میں نے نسلوں میں غلامی مانگی

مجھے اعزاز وہؐ بخشیں گے ضرور


کب میں ہرچیز تجھ پہ واروں گا

کب میں مومن بنوں گا میرے حضورؐ


علمِ غیب اُنکا کوئی کیا سمجھے

جب سواری کو بھی ہو کشفِ قبور


تیرا صدیقؓ ہے وہ قلزمِ عشق

کر نہیں سکتا کوئی جس کو عبور


کتنی بارعب سادگی ہے تری

کتنا لاچار ہے یہاں پہ غرور


اشک میرے یہ کہہ رہے ہیں شکیلؔ

دل سے ہرگز نہیں مدینہ دور

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

حکم سرکار کی جانب سے اگر آئے گا

ہر دل نوں سکون آوے سرکار دا ناں سُن کے

مکے حاضری دے دن ہوئے پورے ہن مدینے دے ولّے تیاریاں نیں

مجھے ہر سال تم حج پر بلانا یارسولَ اللہ

روضۂ سرکارؐ رشکِ مطلعِ فاران ہے

روئے بدر الدجیٰ دیکھتے رہ گئے

نہ دنیا نہ جاہ و حشم مانگتا ہوں

راضی جیہدے اُتے مصطفی دی ذات ہو گئی

اللہ غنی ، وہ بھی کیا ذاتِ گرامی ہے

مصطفیٰ صلِّ علیٰ سید و سرور کے طفیل