روشن ہوئے کریمیِ پیغمبراں کے دیپ
آئے حضورؐ جل گئے امن و اماں کے دیپ
پرتو جمالِ روئے پیمبر کے ہیں سبھی
روشن ہیں جو بھی انجمنِ آسماں کے دیپ
وحدانیت کا مہر ہوا جس گھڑی طلوع
گل ہوگئے تمام ہی باطل جہاں کے دیپ
فرطِ خوشی سے ہر دلِ بے کس چمک اٹھا
جب جگمگائے مونسِ ہر بے کساں کے دیپ
یہ سب رسولِ پاک کے تلووں کی گرد ہیں
روشن ہیں آسمان پہ جو کہکشاں کے دیپ
صحنِ درِ نبیؐ کا ہے ٹکڑا ریاضِ خلد
طیبہ میں گویا جلتے ہیں باغِ جناں کے دیپ
محفوظ کیوں نہ ہوں بھلا ظلمت کے شر سے ہم
روشن ہیں دل میں حُبِّ شہِ دو جہاں کے دیپ
پھر تو ہے کامیاب مدینے کی حاضری
کردیں عطا جو نورِ کرم آستاں کے دیپ
شامل ہے اِن میں روغنِ حُبِ رسولِ پاکؐ
خاموش ہو نہ پائیں گے میرے مکاں کے دیپ
عصیاں کی تیرگی کا نہ احسؔن ملال کر
روشن ہیں جب شفاعتِ شاہِ جہاں کے دیپ
شاعر کا نام :- احسن اعظمی
کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت