صدقہ حسنین کا اے آقا رُخِ انور کی

صدقہ حسنین کا اے آقا رُخِ انور کی

میری بے چین نگاہوں کو زیارت دے دو


شربتِ دید ہمیں آکے پلاؤ آقا

اپنے چہرے سے ذرا زُلف ہٹاؤ آقا


میری نظروں کو بھی اَب شرفِ تلاوت دے دو

اُن پہ قُربان اگر جان و جگر ہونا ہے


اُن پہ قُربان اگر جتنِ عدل ہونا ہے

پھر قیامت سے بھی پہلے وہ قیامت دے دو


دیکھنا حشر میں سب اپنی زباں کھولیں گے

زہرا حسنین و علی سے وہ یہی بولیں گے


کہ باغِ فردوس میں جانے کی اجازت دے دو

حق بندگی میں سمجھوں گا ادا ہو ہی گیا


راضی مجھ پہ وہ میرا خُدا ہو ہی گیا

اپنی نعلین پہ جُھکنے کی اجازت دے دو


چشمِ حاؔکم نے بھی طیبہ نہیں دیکھا ہے

یعنی سرکار کا وہ رَوضہ نہیں دیکھا ہے


اے قضا اور مجھے جینے کی مہلت دے دو

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

آنکھیں سوال ہیں

شوقِ جنت کا سفر شہرِ مدینہ کی طرف

دِل کعبے کا کعبہ ہے مدینہ ہے نظر میں

محبوب خدا دا، دو جگ تے میں راج نہ آکھاں تے کی آکھاں

دنیا ہے ایک دشت تو گلزار آپ ہیں

شاہؐ کے فیض سے انسان کا ہر کام چلا

نورِ حق لے کے ماہِ تمام آگیا

زباں پر جوں ہی آیا نامِ مُحمَّد

ہمیشہ طوف میں اس کے ہی عرش اعلیٰ رہتا ہے

شورِ مہِ نو سن کر تجھ تک میں دَواں آیا