شب معراج پَل بھر میں مکاں سے لا مکاں پہنچے

شب معراج پَل بھر میں مکاں سے لا مکاں پہنچے

جہاں کوئی نہ پہنچا سرورِؐ عالَم وہاں پہنچے


رُکے جبریلؑ، لیکن اُن کو جانا تھا وہاں پہنچے

محمدؐ مصطفٰؐے عرشِ علیٰ تک بے گُماں پہنچے


شرف ہے بینوائی بارگاہِ شاہِؐ بطحا میں

نشاں والوں سے پہلے دَر پہ بے نام و نشاں پہنچے


پکارا جب کسی نے ’’یامحمدؐ مصطفےٰؐ‘‘ کہہ کر

مدد کو اپنے فریادی کی شاہِؐ انس و جاں پہنچے


بہت بےچین ہُوں بس منتظر ہُوں باریابی کا

الٰہی! آستاں پر اُن کے میری داستاں پہنچے


حبیبِؐ کبریا کی یاد میں خونِ جگر لے کر

چلے دل سے تو پلکوں تک مِرے اشکِ رواں پہنچے


یہ اُن کے آستانِ پاک کا اک فیضِ ادنیٰ ہے

توانا ہوکے واپس آئے جو بھی ناتواں پہنچے


مقامِ کبریا آگے ہے ادراک و تخیّل سے

شبِ معراج یہ کس کو خبر ہے وہ کہاں پہنچے


نصیرؔ اب ایک ہی دُھن ہے کہ دیکھیں کب زیارت ہو

دیارِ مصطفٰےؐ میں کب ہمارا کارواں پہنچے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

حور و غلمان و ملک عالمِ انساں مدّاح

سینہِ پر غم میں چاہت کا نشاں ہے دل کہاں ہے

ہمراہ میں اک نور کے دھارے کے چلا ہوں

جان دینی ہے، یہ خبر رکھیے

نورِ نبیؐ ہے نظّارہ گستر اللہ اکبر

مِرے گھر آ گئے ہیں احمدِ مختار ’’بسم اللہ‘‘

سید المرسلیںؐ سلامُ علیک

مرے آقا عطائیں چاہتا ہوں

مرا راز کب مرا راز ہے

ہر اسم میں شعور ہے عرفانِ نعت ہے