ہر اسم میں شعور ہے عرفانِ نعت ہے

ہر اسم میں شعور ہے عرفانِ نعت ہے

یعنی ہر ایک ذات میں وجدانِ نعت ہے


حامد کی حمد حمد میں ہیں نعت ہی کے راز

ذاکر کے ذِکر ذِکر میں اعلانِ نعت ہے


ہر ممکن الوجود پہ واجب ہے ان کی نعت

’’ہر شعبۂ حیات میں امکانِ نعت ہے‘‘


سمٹی ہے نعت ہی میں سبھی کائناتِ اسم

یعنی الف ہی میم کا عنوانِ نعت ہے


معبود دے رہا ہے تو حکمِ درود ہی

محبوبِ حق کا اذن بھی فرمانِ نعت ہے


ہےحرف حرف نعت کی اک کہکشاں سجی

اور لفظ لفظ نعت کا بستانِ نعت ہے


لہجوں میں اک مٹھاس تو روحوں میں اک نمی

ہر لحن سے جمیل یوں الحانِ نعت ہے


صورت کا حسن اس میں ہے سیرت کا بھی جمال

خالق نے خُوب لکھ دیا قرآنِ نعت ہے


قرآں کو چشمِ دل سے ذرا پڑھ کے دیکھئے

ہر ایک لفظ لؤلؤ و مرجانِ نعت ہے


سُن کر یقولُ ناعتُ آئے ہیں صف بہ صف

ہم کو علی کی بات ہی پیمانِ نعت ہے


رومی کہیں پہ سعدی و جامی بھی دل بکف

یہ کارواں مقلّدِ حسّانِ نعت ہے


ہم جی رہے ہیں نعت کے عہدِ نصیر میں

چاروں طرف حضور کا فیضانِ نعت ہے


نوری ہے تیرے لفظوں کی مبلغ بساط کیا

تیرے دل و دماغ پہ احسانِ نعت ہے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

عزتِ عرش و فلک پائے رسولِ عربی

مرتبہ مجھ کو فنا فی العشق کا درکار ہے

جس سے دونوں جہاں جگمگانے لگے

اک نویں حیاتی ملدی اے بول ایسے عربی ڈھول دے نیں

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

نشاں ملتا نہ چشمِ ہوش کو اُس ذاتِ بے حد کا

غلاموں پر محمد کی عنایت ہوتی رہتی ہے

ہمیں دربار میں اپنے بُلائیں یارسول اللہ

میرے لَب پر جب ان کا نام آیا

جی رہا ہوں میں اُس دیار سے دُور