مرتبہ مجھ کو فنا فی العشق کا درکار ہے
اپنے آئینے میں عکسِ مُصطفےٰ درکار ہے
جیسا وہ فیّاض ویسی تہی دامانی مِری
مجھ بھکاری کو شہِ اَرض و سَما درکار ہے
لَوٹ جا عہدِ نبی کی سمت رفتارِ جہاں
پھر مِری پسماندگی کو اِرتقا درکار ہے
میں نے اپنی جستجو میں کِتنی صدیاں کاٹ دیں
میرے مولا مُجھ کو اپنا ہی پتہ درکار ہے
قیمتی پوشاک میں بھی ہے برہنہ زندگی
روشنی کو تیرے سائے کی قبا درکار ہے
صرف تجھ پر خرچ کرنا چاہتا ہُوں زندگی
ایک شب میں عمر بھر کا رت جگا درکار ہے
لے بھی لے اب اپنی رحمت کی پناہوں میں اسے
اُمّتِ بیمار کو دارالشّفا درکار ہے
زینۂ خُوشنودیِ حق ہیں تِرے نقشِ قدم
پہلے وہ تیرا بنے جس کو خُدا درکار ہے
ایک پل بھی ہو بہت تجھ تک پہنچنے کے لیے
طے نہ جو کرنا پڑے وہ راستہ درکار ہے
مبتلائے حبسِ دُوری ہے مظفر وارثی
شاہِ بطحا اس کو بطحا کی ہوا درکار ہے
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- امی لقبی