آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

گل کھل گئے تو روح بھی سرشار ہوگئی


رخصت ہوئی جو تیرگی جگمگ ہوئی فضا

کُھل کر پھر آج بارشِ انوار ہو گئی


ہم عاصیوں کے بگڑے مقدر سنور گئے

ہم پر نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی


مرجھا چکا تھا غم سے مری زیست کا شجر

اس کی ہر ایک شاخ ثمر بار ہو گئی


یادِ نبی کو جب سے ہے دل میں بسا لیا

بے رنگ زندگی گل و گلزار ہو گئی


جب بھی تڑپ کے عرض کی آقا بلا یئے

پھر ناز تیری حاضری ہر بار ہوگئی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

زہے عزّت و اِعتلائے مُحَمَّد ﷺ

ایمان کی بنیاد محمدؐ کی محبت

فرقت کی داستان اُڑا لے گئی ہوا

سکہّ حق چلانے حضورؐ آگئے

میں لجپالاں دے لڑلگیاں مرے توں غم پرے رہندے

نام جن کا ہے درِ شاہ کے دربانوں میں

گنہ گاروں کو ہاتِف سے نوید خوش مآلی ہے

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں

تخلیق ہوا ہی نہیں پیکر کوئی تم سا