شاہانِ جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں

شاہانِ جہاں کس لیے شرمائے ہوئے ہیں

کیا بزم میں طیبہ کے گدا آئے ہوئے ہیں؟


ہنگامہ محشر میں کہاں حَبس کا خدشہ

گیسو شہِؐ کونین کے لہرائے ہوئے ہیں


حاجت نہیں جُنبِش لی یہاں اے لبِ سائل!

وہ یُوں بھی کرم حال پہ فرمائے ہوئے ہیں


یہ شہرِ مدینہ ہے کہ اک کشش آباد

محسوس یہ ہوتا ہے کہ گھر آئے ہوئے ہیں


ایثار و مساوات و مُؤاخات و تواضع

یہ پھُول سبھی آپ کے مہکائے ہوئے ہیں


کَل اپنی عنایت سے یہ رکَھیں ہمیں محروم

کچھ بھی ہیں، مگر آپ کے کہلائے ہوئے ہیں


یا شاہِ اُمم! ایک نظر اُن کی طرف بھی

دامانِ تمنّا کو جو پھیلائے ہوئے ہیں


خورشید ِجہاں تاب ہو، یا ماہِ شب افروز

دونوں ترے چہرے سے ضیا پائے ہوئے ہیں


مِلتی نہیں دل کو کسی پہلو بھی تسلّی

لمحاتِ حُضوری ہیں کہ تڑپائے ہوئے ہیں


اِس وقت نہ چھیڑ اے کششِ لذّتِ دنیا!

اِس وقت مِرے دل کو وہ یاد آئے ہوئے ہیں


سُلطاںِ دو عالَم کی عطا اور یہ عاصی

کچھ لوگ تو اِس بات پہ چکرائے ہوئے ہیں


حاوی ہے فلک کُلّیتًا جیسے زمیں پر

اِس طرح مِرے ذہن پہ وہ چھائے ہوئے ہیں


جنت کی فضائیں اُنہیں بہلا نہ سکیں گی

جو آپ کی گلیوں کی ہَوا کھائے ہوئے ہیں


بن جائے گی محشر میں نصیرؔ اب تِری بگڑی

سرکارؐ، شفاعت کے لیے آئے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

کرم کر کرم کر کرم یا نبی

آفتاب ِ رسالت نہ اُبھرا تھا جب

جہاں بھی ہونے لگتی ہیں گُل و گُلزار کی باتیں

کچھ ایسے صاحبِ اعزاز ہیں آپؐ

محمد مصطفے آئے بہار آئی بہاراں تے

جاتا ہے زمانہ طرفِ کوئے مُحمَّد

اے رسولِؐ خدا اے رسولِؐ خدا

سفر مدینے کا کچھ ایسا مرحلہ تو نہیں

اللہ کرم اللہ کرم آباد رہے نعتوں کا جہاں

گل وچ سوہندی مدنی پی دی نسبت والی گانی ہو