طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے

طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے

ہمارے رنج و الم عرضِ حال تک پہنچے


سجائے ہجرِ مسلسل نے نعت کے مصرعے

براہِ مدحتِ سرور، وصال تک پہنچے


مرے کریم نے حاجت روائی پہلے کی

یہ ہونٹ بعد میں حرفِ سوال تک پہنچے


حسِین ہو گی ستاروں کی کہکشاں لیکن

نہیں مجال کہ گردِ نعال تک پہنچے


ہمارا فن تو فقط نا تمام خواہش تھا

حروف نعت ہوئے تب کمال تک پہنچے


خجیل ہو کے قمر بادلوں میں چھپ جائے

نگاہ اس کی اگر ان کے گال تک پہنچے


ستارے بن کے بلندی پہ جگمگانے لگے

جو خوش نصیب شہِ خوش خصال تک پہنچے


مدینے پہنچے تو اشفاق میرے دل نے کہا

ہمارے زخمِ کہن اندمال تک پہنچے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- زرنابِ مدحت

دیگر کلام

نورِ حق سے ہے رنگِ جہاں مختلف

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے

بسی دل میں ہمیشہ سے مدینے

ہر شے میں ہے نورِ رُخِ تابانِ محمد

ہم سے عاصی مدینے بُلائے گئے

اگر نہ تیری فقیری اے تاجدار کرے

دو عالم دا جو لج پال

قریۂ خوشبو مری سانسوں کو مہکانے لگا

طیبہ سے منگائی جاتی ہے

اعلیٰ سے اعلیٰ رِفعت والے بالا سے بالا عظمت والے