اُن کا تصور اور یہ رعنائیِ خیال

اُن کا تصور اور یہ رعنائیِ خیال

دل اور ذہن محوِ پذیرائیِ خیال


مرکز ہوں اک وہی مِرے ذوق ِخیال کے

یکتا ہیں وہ، تو چاہیے یکتائیِ خیال


ممکن نہیں کہ وصف بیاں اُن کے ہوسکیں

محدود کس قدر ہے یہ پہنائیِ خیال


بے حرف و صورت بھی یہاں ممکن ہے التجا

کافی ہے عرضِ حال کو گویائیِ خیال


ہر ذرّہ بارگاہِ نبیؐ کا، چراغِ ذہن

خاکِ مدینہ، سُرمۂ بینائی ِخیال


بے جان اپنی سوچ ہے، بے رُوح اپنا ذوق

درکار ہے ہمیں بھی مسیحائیِ خیال


مِلتی ہے صِرف اُن کی توجّہ کے نُور سے

تنہائیوں میں انجمن آرائیِ خیال


اُنؐ کے بغیر رنگ نہ ہو کائنات میں

ہے اُنؐ کے دَم سے زینت و زیبائیِ خیال


اوروں کے در پہ جانے کا سوچُوں مَیں کیوں نصیرؔ

مجھ کو نہیں قبول یہ رُسوائیِ خیال

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

نہ تمنا دولتوں کی نہ ہی شہرتوں کی خواہش

کر دو کرم کونین کے والی رحمت عالم ذات تیری ہے

مدنی سب نبیاں دا پیر مدنی سب نبیاں دا پیر

راضی جیہدے اُتے مصطفی دی ذات ہو گئی

تری عظمت کے سُورج کو زوال آیا نہیں اب تک

بہت اونچا ہے قسمت کا ستارا

مان مخلوق دا رب دا ماہی

رحمتوں کے اثر میں رہتے ہیں

زد میں دنیا تھی جب برائی کی

بھٹکیں گے کیسے ہم جو رہے رہبری میں آپ ﷺ