اُن کا احساں ہے خدا کا شکر ہے

اُن کا احساں ہے خدا کا شکر ہے

دل ثنا خواں ہے خدا کا شکر ہے


اسوہء خیر البشر ہے سامنے

راہ آساں ہے خدا کا شکر ہے


دولتِ عشقِ نبی سینےمیں ہے

پاس ایماں ہے خدا کا شکر ہے


غم نہیں کوئی کہ اسمِ مصطفیٰ

راحتِ جاں ہے خدا کا شکر ہے


مجھ سا عاصی اور شہر نور میں

اُن کا مہماں ہے خدا کا شکر ہے


ذکر حمد و نعت سے آراستہ

محفلِ جاں ہے خدا کا شکر ہے


میرے فکر و فن کا میری زیست کا

نعت عنواں ہے خدا کا شکر ہے


اُن کے در پر حاضری کا اے صبیح ؔ

پھر سے امکاں ہے خدا کا شکر ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

شکرِ الطافِ خدا کی مظہر

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

امیراں دی گل ناں غریباں دی گل اے

اے امامِ عارفین و سالکیں

یانبی لب پہ آہ و زاری ہے

میں لجپالاں کریماں دے دوارے تے صدا کرنا

کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تری گلی میں

زباں پہ جب بھی مدینے کی گفتگو آئی

عالَمِ شش جہات میں ایسا بھلا کرم کہاں؟

ظہورِ سرورِ کون و مکاں ، ظہورِ حیات