اُس کی ہر بات بنی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ

اُس کی ہر بات بنی اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ

اُس کا ہر فعل بنا حُجّتِ بُرہان و اُصول


نُوْرُہٗ صَارَ مُمِدًّا لِّوُجُودِ الْکَوْنَیْن

جُودُہٗ ظَلَّ مُعِیْنًا لِّنُفُوْسٍ وَّ عُقُوْل


یَعْرِفُ الْحَقَّ بِہٖ کلُّ غَبِیٍّ وَّ غوِی

یَعْلَمُ الْخَیْرَ بِہٖ کُلُّ ظَلُوْمٍ وَّجَہُوْل


لَیْلَۃً صَعَّدَ فِیْ سَاحَۃِ فَضْلٍ وَّعُلٰی

حَارَفِیْ قُرْبَتِہٖ کُلُّ نَبِیٍّ وَّرَسُوْل


کُلُّ مَنْ تَابَعَہٗ کَانَ حَبِیْبَ الْمَوْلٰی

کُلُّ مَنْ خَالَفَہٗ فَہُوَ طَرِیْدٌ مَّغْلُوْل


نسبت اُس سے نہ اگر ہو تو محاسن بھی گناہ

وہ شفاعت پہ ہو مائل تو ذمائم بھی قبول


وہی قرآں، وہی معنیٰ، وہی مفہوم و مُراد

وہی علّت، وہی غایت، وہی اصلِ معلول


سینۂ پاک ہے وہ مصحفِ اسرارِ الٰہ

نہ سمجھ پائے جسے عرصۂ دانش کے فحول


ذکر چھڑ جائے جہاں زلفِ رسا کا اُس کی

بخت کو تاہ کو لازم ہے وہاں نازشِ طُول


گرچہ ہے عالَمِ تشبیہ میں اِلَّا بَشَرٌ

ایک ہو جاتے ہیں تنزیہ میں، علّت معلول


وہ نہ ہوتے، تو ذرا دیدہ وروں سے پوچھو

ہوتا کیوں کر کوئی پیغامِ سماوی موصول

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں

خبر نہیں کہاں ہُوں، کدھر ہُوں، کیا ہُوں مَیں

مختصر محدود و ناقص آدمی کی سوچ ہے

.آپ خیر الانام صاحب جی

ماہِ عرب کا نور مری شاعری میں ہے

عیاں اُس کی عظمت ہے اُس کی جبیں سے

کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تری گلی میں

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا

محبت میں اُن کی مدینے چلا ہوں