وصف کیا لکھے کوئی اس مَہْبِطِ اَنوار کا

وصف کیا لکھے کوئی اس مَہْبِطِ اَنوار کا

مہر و مہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا


عرشِ اَعظم پر پھریرا ہے شہِ اَبرار کا

بجتا ہے کونین میں ڈَنکا مرے سرکار کا


دوجہاں میں بٹتا ہے باڑہ اسی سرکار کا

دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی دَربار کا


جاری ہے آٹھوں پہر لنگر سخی دَربار کا

فیض پر ہر دَم ہے دَریا اَحمدِ مختار کا


روضۂ والائے طیبہ مخزنِ اَنوار ہے

کیا کہوں عالم میں تجھ سے جلوہ گاہِ یار کا


دل ہے کس کا جان کس کی سب کے مالک ہیں وہی

دونوں عالم پر ہے قبضہ اَحمدِ مختار کا


کیا کرے سونے کا کشتہ کشتہ تیرِ عشق کا

دِید کا پیاسا کرے کیا شربتِ دِینار کا


فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منہ کے سامنے

جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا


لات ماری تم نے دُنیا پر اگر تم چاہتے

سلسلہ سونے کا ہوتا سلسلہ کُہسار کا


میں تیری رحمت کے قرباں اے مرے اَمن واَ ماں

کوئی بھی پُرساں نہیں ہے مجھ سے بدکردار کا


ہیں مَعاصی حد سے باہر پھر بھی زاہد غم نہیں

رحمتِ عالم کی اُمت بندہ ہوں غفار کا


تو ہے رحمت بابِ رحمت تیرا دَروازہ ہوا

سایۂ فضلِ خدا سایہ تیری دِیوار کا


کعبہ و اَقصیٰ و عرش و خلد ہیں نوریؔ مگر

ہے نرالا سب سے عالم جلوہ گاہِ یار کا

شاعر کا نام :- مفتی مصطفٰی رضا خان

کتاب کا نام :- سامانِ بخشش

دیگر کلام

اَلوَداع اے سبز ُگنبد کے مکیں

اپنا غم یاشہِ انبیا دیجئے

خدا کا ذکر کرے ذکرِ مصطفٰی ﷺ نہ کرے

مدینے دی ساری زمین الله الله

عشق تو ہے تیرا لیکن بہتیرا چاہوں

جی کردا ویکھاں اوہ نگری جتھے رحمت جھڑیاں لائیاں نے

صبا بہ سوئے مدینہ رُوکن ازین دُعاگو سلام بر خوان

قیامت ہے اب انتظارِ مدینہ

سوئے طیبہ یہ سمجھ کر ہیں زمانے جاتے

صحنِ گلشن میں گھٹا نور کی چھائی ہوئی ہے