اَلوَداع اے سبز ُگنبد کے مکیں

اَلوَداع اے سبز ُگنبد کے مکیں

الفراق اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیں


اَلوَداع اے مظہرِ ذاتِ خدا

الفراق اے خلق کے مشکل کشا


اَلوَداع اے شہرِ پاکِ مصطفیٰ

الفراق اے مَہْبِطِ وَحیِ خدا


جارہا ہے اب ہمارا قافلہ

اے دَر و دِیوارِ شہرِ مصطفٰی


یاد تیری جس گھڑی بھی آئے گی

ہے یقیں دل کو بہت تڑپائے گی


اے دلوں کے چین اے پیارے نبی

لو غلاموں کا سلامِ آخری


دُور سے آئے تھے پردیسی غلام

عرض کرنے کو غلامانہ سلام


آستانہ سے وَداع ہوتے ہیں اب

یہ تو فرماؤ کہ بلواؤ گے کب


چشمِ رَحمت سے نہ تم کرنا جدا

رکھنا اپنے سائے میں ہم کو سدا


اے مدینہ والو تم سب خوش رہو

دامنِ محبوب میں پھولو پھلو


عرض اتنی ہے مگر اے دوستو

یاد ہم کو بھی کبھی کر لیجیو


آخری دِیدار ہے اے زائرو

خوب جی بھر کر یہ گنبد دیکھ لو


کیا خبر ہے خوب دل میں سوچ لو

پھر مقدر میں ہو آنا یا نہ ہو


یہ کوئی دَم میں چھپا جاتا ہے اب

فاصلہ کوسوں ہوا جاتا ہے اب


پھر کہاں تم اور کہاں یہ دوستو

دِید آخر کو غنیمت جان لو


ہے دعا سالکؔ کی اے بارِ خدا

زندگی میں پھر مَدینہ دے دکھا

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

آیا دورِ علی حیدر ؑ

کسی سکندر سے کم نہیں ہیں کہ ہم گدا ہیں در نبی کے

ان کی رفعت کا شاہد ہے عرشِ علا

مہ و خورشید سے روشن ہے نگینہ تیرا

محتاط قلم رکھنا سرکار کی مدحت میں

ساڈے ول سوہنیا نگاہواں کدوں ہونیاں

کاش مقبول ہو میری یہ دُعا جلدی سے

کتاب معتبر سب سے بڑا ہے معجزہ تیرا

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے