وہ قافلے کب بھٹک رہے ہیں

وہ قافلے کب بھٹک رہے ہیں

جو سبز گنبد کو تک رہے ہیں


ازل بھی اُن کا اَبد بھی اُن کا

سب آئینوں میں جھلک رہے ہیں


تمام اسمِ گرامی اُن کے

بساطِ جاں پر چمک رہے ہیں


وہ سوزِ عشق نبی ہے دل میں

ہزار الاؤ دہک رہے ہیں


قدم اُٹھے ہیں سوئے مدینہ

تمام رَستے مہک رہے ہیں


زباں کو مدحت کی آرزو ہے

لہو میں نغمے ہمک رہے ہیں


صبیحؔ کیسے ادا ہو مدحت

حروف لب پر اٹک رہے ہیں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

اے محسنِ انساں تری سیرت کے میں صدقے

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

بوقتِ مرگ یہ جلوہ مِری نظر میں رہے

جن کا لقب ہے مصطفیٰ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاھِبٌ میں میہمانی ہے

سجائے ہوئے سر پہ تاجِ شفاعت حضور آرہے ہیں حضور آ رہے ہیں

حرزِ جاں ذِکرِ شفاعت کیجیے

جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ