وہی جو مظہرِ ذاتِ خدا ہے

وہی جو مظہرِ ذاتِ خدا ہے

دوعالم میں اسی کا غَلغلہ ہے


وہی عالم کی وجہِ ابتدا ہے

نبوّت کا وہ حرفِ انتہا ہے


جمال و حسن کا وہ آئینہ ہے

کہ جس کا نام احمد مصطفیٰ ہے


شبِ اسریٰ سے یہ عقدہ کھُلا ہے

یہ گردوں زیرِ پائے مصطفیٰ ہے


مدینہ مرکزِ انوارِ یزداں

مدینہ مسکنِ خیر الوریٰ ہے


نبی کی نعت گوئی کی بدولت

جہاں بھر میں مرا چرچا ہوا ہے


قمر میں آفتاب و کہکشاں میں

نبی کا حسن ہی جلوہ نما ہے


شرف بخشا ہے طیبہ کو نبی نے

یہاں کی خاک میں رکھی شفا ہے


مدینہ طیبہ ہو اس کا مسکن

شکستہ دل کی یا رب یہ صدا ہے


کہا شبیرؔ نے گھر کو لٹا کر

نبی کے دین پہ سب کچھ فدا ہے


چلو شہرِ مدینہ مفلسو تم

غریبوں کا وہی تو آسرا ہے


زبانِ احمدؔ خستہ جگر پر

محمدﷺ مصطفیٰ صلِّ علیٰ ہے

کتاب کا نام :- حَرفِ مِدحَت

دیگر کلام

کیوں خدا کی نہ ہو اُس پہ رحمت سدا

میرا وردِ زباں ہے ترا نام بس

لفظ کے بس میں نہ تھا عرضِ تمنا کرنا

دل میں پیارے نبی کی ہیں یا دیں لب پہ ہو اللہ ہو کی صدا ہے

زمین و آسمان جُھومے عقیدت کا سلام آیا

کمی جو آنے نہ دے محبت میں

آپ کے جیسا خوش جمال کہاں

ترے خواب کی راہ تکتی ہیں آنکھیں

سلام اُس نورِ اوّلیں پر

اوہنوں جان کہواں یا جان دی وی اُس سوہنے نوں میں جان آکھاں