یہ مری حدِ سفر ہو جیسے

یہ مری حدِ سفر ہو جیسے

رو برو آپ کا در ہو جیسے


میں زمیں پر ہوں دماغ عرش پہ ہے

ان کی دہلیز پہ سر ہو جیسے


جگمگا تا ہے کچھ اس طرح شور

آپ کی راہ گزر ہو جیسے


ان کی نعلین کے ذرے خورشید

کہکشاں گردِ سفر ہو جیسے


یوں سرِ راہ لگی ہیں آنکھیں

ان کے آنے کی خبر ہو جیسے


کیف افروز ہے یوں شغلِ درود

رات طیبہ میں بسر ہو جیسے


یوں ہر اک شے کی حقیقت ہیں حضورؐ

آنکھ میں نورِ نظر ہو جیسے


یوں ہر اک سانس سے پیغام ِ سکوں

التجاؤں کا ثمر ہو جیسے


ان کے دیوانے کا اللہ دے فیض

کوئی پھلدار شجر ہو جیسے


ان کی دن رات زیارت کرنا

یوں ہے معراجِ بشر ہو جیسے


اس طرح یاد تمہاری آئی

کوئی پر نور سحر ہو جیسے


نعت یوں وجہِ سکوں ہے خالدؔ

نعت ہی زادِ سفر ہو جیسے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

ماند پڑ جاتا ہے اُنؐ کے آگے حسنِ کائنات

وجود چاہے فرشتو عدم میں رکھ دینا

دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا

نظر دا فرش وچھاؤ حضور آئے نیں

وہی ماحول کی پاکیزہ لطافت دیکھی

مختصر سی مری کہانی ہے

باعثِ سکونِ دل کا، محمدﷺ کا نام ہے

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں

رب دیا پیار یا کد ساہ لیسی روح میری دا پارہ

نہ چھوٹے ہاتھ سے کس کر پکڑ لے