یہ وہ محفل ہے جس میں اَحمد مختار آتے ہیں

یہ وہ محفل ہے جس میں اَحمد مختار آتے ہیں

مَلائک لے کے رحمت کے یہاں اَنوار آتے ہیں


زیارت کے لیے بن کر مَلک زوَّار آتے ہیں

نبی کو دیکھنے یاں طالبِ دِیدار آتے ہیں


غلامانِ شہِ دِیں بزم میں یوں آتے ہیں جیسے

بھکاری بھیک لینے بر سرِ دَربار آتے ہیں


وہ لیجاتے ہیں بخشش کی سند سرکارِ طیبہ سے

معاصی کے جو مومن لے کے یاں طومار آتے ہیں


چلو ہے میزبانی جوش پر سرکارِ طیبہ کی

لیے رحمت کے خوانوں میں مَلک اَنوار آتے ہیں


نگاہِ کور باطن قاصر و مجبور ہے لیکن

شہِ کون و مکاں ہر دِل میں سو سو بار آتے ہیں


منافق جانتے ہیں شرک گر اس بزمِ اَقدس کو

تو خود کیوں شرک کرنے کے لیے مکار آتے ہیں


مخالف بے اَدب اس ذِکر کی رِفعت کو کیا سمجھے

یہاں پر سر کے بل اہل سنن دِیں دار آتے ہیں


قیامِ محفلِ مولد سے جلتے ہیں بہت منکر

مگر مومن پہن کر یاں اَدب کے ہار آتے ہیں


یہ اُن کے سبز گنبد پر بخطِ نور لکھا ہے

وہ اچھے ہو کے جاتے ہیں جو یاں بیمارآتے ہیں


اُٹھے گا شور محشر میں گنہگارو نہ گھبراؤ

وہ دیکھو شاہ کھولے گیسوئے خمدار آتے ہیں


خریدیں گے جو رحمت کے عوض اَنبار عصیاں کے

خریدارِ ُگنہ اَب بر سرِ بازار آتے ہیں


جو کہتے ہیں مصیبت میں اَغِثْنِیْ یَارَسُوْلَ اللہ

مَدد کرنے کو ان کی سید اَبرار آتے ہیں


شبِ تاریک مرقد سے نہ گھبرائے دِلِ مُضْطَر

کوئی دَم میں نظر وہ چاند سے رُخسار آتے ہیں


خداوندا دَمِ آخر یہ عزرائیل فرمائیں

جمیلِؔ قادری ہوشیار ہو سرکار آتے ہیں

شاعر کا نام :- جمیل الرحمن قادری

کتاب کا نام :- قبائلۂ بخشش

دیگر کلام

کہیں بھٹکے کہیں ٹھہرے سفینہ

نظر میں جلوہ ہو آٹھوں پہر مدینے کا

مرا دل جب کبھی درد و الم سے کانپ اٹھتا ہے

بتایا آپؐ کے ہر مقتدی رسول نے ہے

دونوں عالم مِلک جن کی اور غذا نان جویں

فلک سے درود و سلام آرہا ہے

میرا گھر غیرتِ خورشیدِ دَرخشاں ہوگا

دیکھا سفر میں آبلہ پا، لے گئی مجھے

نہ رہناں بادشہ کوئی تے ناں کوئی گدا رہناں

خدا والے ہی جانیں ذاتِ محبوبِؐ خدا کیا ہے