میرا گھر غیرتِ خورشیدِ دَرخشاں ہوگا

میرا گھر غیرتِ خورشیدِ دَرخشاں ہوگا

خیر سے جانِ قمر جب کبھی مہماں ہوگا


جو تبسم سے عیاں اِک دُرِ دَنداں ہوگا

ذَرَّہ ذَرَّہ مرے گھر کا مَہِ تاباں ہوگا


کیوں مجھے خوف ہو محشر کا کہ ہاتھوں میں مرے

دامنِ حامیِ خود ماحیِ عصیاں ہوگا


پلہ عصیاں کا گراں بھی ہو تو کیا خوف مجھے

میرے پلے پہ تو وہ رحمتِ رَحماں ہوگا


مجھ سے عاصی کو جو بے داغ چھڑا لائیں گے

اَہلِ محشر میں جو دیکھے گا وہ حیراں ہوگا


کوئی منہ میرا تکے گا کہ یہ وہ عاصی ہے

جس کو ہم جانتے تھے داخلِ میزاں ہوگا


کوئی اس رحمتِ عالم پہ تصدق ہوگا

کوئی یہ شانِ کرم دیکھ کے قرباں ہوگا


ماجرا دیکھ کے ہوگا یہ کسی کو سکتہ

اِک تعجب سے وہ اَنگشت بدنداں ہوگا


ان کی حیرت پہ کہوں گا کہ تعجب کیا ہے

خود خدا ہوگا جدھر سروَرِ ذِیشاں ہوگا


دَم نکل جائے تمہیں دیکھ کے آسانی سے

کچھ بھی دشوار نہ ہوگا جو یہ آساں ہوگا


زخم پر زخم یہی کھائے یہی قتل بھی ہو

خونِ مسلم ابھی کیا اس سے بھی اَرزاں ہوگا


بھیڑیوں کا ہے یہ جنگل نہیں کوئی رَاعی

بھولی بھیڑوں کا شہا کون نگہباں ہوگا


ظلم پر ظلم سہے اور سزائیں بھگتے

اور اُف کی تو تہ خنجرِ بُرَّاں ہوگا


یہی اَندھیر اگر اور بھی کچھ روز رہا

تو مسلماں کا نشاں بھی نہ نمایاں ہوگا


صبحِ روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی

کب قمر نور دَہِ شامِ غریباں ہوگا


تو اگر چاہے ملے خاک میں سلطانِ زماں

تیرا بندہ کوئی تو چاہے تو سلطاں ہوگا


ظلمتِ قبر کا کیا خوف مجھے اے نوریؔ

جب مرے قلب میں اِیمان کا لمعاں ہوگا

شاعر کا نام :- مفتی مصطفٰی رضا خان

کتاب کا نام :- سامانِ بخشش

دیگر کلام

نعت لکھتے ہوئے اِک مدحً سرا کیف میں ہے

دکھایا جب زلیخا نے جمال ِ حضرت یوسف

تری جس پہ ساقی نظر ہوگئی ہے

اے جود و عطا ریز

میں جنت کی زمیں مانگوں نہ جنت کی ہوا مانگوں

سارے جہاناں نالوں سوہنے دی بستی چنگی

تُو قاسمِ انوار ہے جب تُو نے نظر کی

نظامِ بادہ نوشی مرضیٔ پیرِ مغاں تک ہے

گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے

دِل نشیں کانوں میں ہے رس گھولتی آوازِ نعت