نظامِ بادہ نوشی مرضیٔ پیرِ مغاں تک ہے
نگاہِ یار کی منزل خدا جانے کہاں تک ہے
کسی بھی غم کی اُلجھن ہو یا دل کی بے قراری ہو
ہماری دوڑ تو بس اک ترے ہی آستاں تک ہے
غبارِ راہِ جاناں پر فدا اہلِ جنوں ہونگے
خرد کا منتہیٰ تو منزل نام و نشاں تک ہے
کرم ان کا کہ ہوں میں مجلسِ حسانؓ میں شامل
رسائی میری نسبت کی نبیؐ کے مدح خوانوں تک ہے
پھر اس کے بعد محفل میں رہے گا دورِ خاموشی
یہ ہاؤ ہُو تو یارو اختتامِ داستاں تک ہے
ترے دردِ محبت کو ظہوریؔ کون سمجھے گا
یہاں اظہار کی صورت فقط طرزِ فغاں تک ہے
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- نوائے ظہوری