ذکر کی محفل جما دینا بھی اُن کی نعت ہے
ذہن و دل کو جگمگا دینا بھی اُن کی نعت ہے
دید کی دل میں طلب رکھنا بھی توصیفِ حضُورؐ
ہجر میں آنسو بہا دینا بھی اُن کی نعت ہے
لیکن ایسا ہے کہ اپنے عہد پُر آزار میں
زخم کھا کر مُسکرا دینا بھی اُن کی نعت ہے
نفرتوں کی گرد دھو دینا بھی ہے اُن کی ثنا
بُعض کے شعلے بُجھا دینا بھی اُن کی نعت ہے
چاہتوں کے پھُول برسانا بھی ہے مدحِ رسُولؐ
عدل کے موتی لُٹا دینا بھی اُن کی نعت ہے
یُوں ہی چلتے میں کِسی کا پاؤں زخمی نہ ہو جائے
راہ کے کانٹے ہٹا دینا بھی اُن کی نعت ہے
آپ کو جو آدمی بھی چہرہ در چہرہ ملے
اُس کو آئینہ دکھا دینا بھی ان کی نعت ہے
بیٹھ کر مسند پہ جو خود کو خُدا سمجھے اُسے
آخری صف میں بٹھا دینا بھی اُن کی نعت ہے
ہر بدی، ہر شِیطنت، ہر فتنہ، ہر تخریب کو
قبر میں گہرا دبا دینا بھی اُن کی نعت ہے
سارے خفیہ ہاتھ، سب پوشیدہ چہرے، سب نقاب
سب کے اصلی رُخ دکھا دینا بھی اُن کی نعت ہے
ہر شرافت کو تحفّظ کی ضمانت بخشنا
ہر شرارت کو مٹا دینا بھی اُن کی نعت ہے
ہر صداقت، ہر شرف، ہر حُرمتِ کردار کو
وقت کا سکّہ بنا دینا بھی اُن کی نعت ہے
خیر کے رستوں کو شر کے پتّھروں سے کر کے صاف
پھر سے یہ چشمے بہا دینا بھی اُن کی نعت ہے
منتشر اُمّت کے گُل ہائے پریشاں بخت کو
ایک گُل دستہ بنا دینا بھی اُن کی نعت ہے
وقت کی تاریکیوں میں ایک ننّھا سا دیا
دستِ جُرأت سے جلا دینا بھی اُن کی نعت ہَے
چہچہاتے لوگ، ہنستی مُسکراتی بستیاں
اِن کو جینے کی دُعا دینا بھی اُن کی نعت ہے
وہ جو باطن میں چھُپی رہتی ہے اِک صُبحِ ضمیر
اُس کو چہروں پر سجا دینا بھی اُن کی نعت ہے
الغرض مدحِ جمالِ مُصطفؐےٰ کرتے ہوئے
جلوۂ سیرت دکھا دینا بھی اُن کی نعت ہے
مختصر یہ ہے کہ جو گم کردہ منزل ہو اُسے
اُن کے رستے پر لگا دینا بھی اُن کی نعت ہے
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں