ظلمتِ شب ہوگئی رخصت ہوئی ضوبار صبح
لے کے آئی مژدہائے آمدِ سرکار صبح
سلسلہ اِک نور کا ہے خاکداں تا آسماں
منفرد انداز میں روشن ہوئی اس بار صبح
جس کے آگے ماند ہے مہرِ درخشاں کی چمک
لے کے وہ خورشیدِ رحمت آج ہے ضوبار صبح
ہو گئی بعثت شہِ کونین کی، وقتِ سحر
سو جتن کے ساتھ ہے جلوہ نما اس بار صبح
جس قدر بھی ناز کر، کم ہے حلیمہ سعدیہ
تیری خوش بختی کی ایسی ہوگئی اس بار صبح
کیوں نہ رقصاں ہو تبسم ہر لبِ مغموم پر
آگئے ہیں شادمانی کی لیے ضوبار صبح
اللہ اللہ کس قدر دلکش ہے طیبہ کی فضا
شام ہے پر کیف جس کی اور ہے ضوبار صبح
کر عطا مجھ کو بھی یا رب شامِ طیبہ کا سماں
ہو مدینے میں مری بھی یا خدا اِک بار صبح
ہاں مگر طیبہ کی صبحِ جانفزا کچھ اور ہے
یوں تو ہوتی ہے یہاں پر اِک نئی ہر بار صبح
ہو عطا احسؔن کو آقا دیدِ طیبہ کا شرف
یہ بھی دیکھے رحمتوں کی شام اور ضوبار صبح
شاعر کا نام :- احسن اعظمی
کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت