خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے

خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے

تیرگی میرے مقدّر کی مٹاتے جاتے


ڈال کر ایک نظر روح کی پہنائی میں

اس خرابے کو سمن زار بناتے جاتے


غار کو چشمہ انوار بنانے والے

افقِ دل سے بھی مہتاب اُگاتے جاتے


کاش طیبہ میں سکونت کا شرف مل جاتا

دیکھتے روضہ سرکارؐ کو آتے جاتے


اُس خنک شہر کو جاتی ہوئی اے نرم ہوا

ساتھ لے جامرے جذبات بھی جاتے جاتے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

پھر مدینے کی گلیوں میں اے کردگار

مُقدّر گر ہوا یاور مدینے ہم بھی جائیں گے

شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

غماں نے بولیا آکے ہے دھاوا یا رسول اللہ

اس کے فکر و فن کو بخشے گا خدا اوجِ کمال

اگر درود لبوں پر سجا نہیں سکتی

یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے

چھٹ گئی گردِ سفر مل گئی کھوئی منزل

شرحِ غم ہے اشکِ خونیں اے شہنشاہِؐ مدینہ!

کبھی تو جانبِ بطحا ہمارا بھی سفر ہوگا