خواب، ہی میں رُخِ پُر نور دکھاتے جاتے
تیرگی میرے مقدّر کی مٹاتے جاتے
ڈال کر ایک نظر روح کی پہنائی میں
اس خرابے کو سمن زار بناتے جاتے
غار کو چشمہ انوار بنانے والے
افقِ دل سے بھی مہتاب اُگاتے جاتے
کاش طیبہ میں سکونت کا شرف مل جاتا
دیکھتے روضہ سرکارؐ کو آتے جاتے
اُس خنک شہر کو جاتی ہوئی اے نرم ہوا
ساتھ لے جامرے جذبات بھی جاتے جاتے
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب