پھر مدینے کی گلیوں میں اے کردگار
کاش پہنچوں میں روتا ہوا زار زار
کاش آ کر مدینے میں پروانہ وار
سبز گنبد پہ ہو جاؤں آقا نثار
مال و دولت کے انبار بیشک نہ دو
بس مُقَّدر میں لکھ دو مدینے کے خار
ساقیا جام ایسا پلادو مجھے
بعدِ مُردَن بھی اترے نہ جس کا خُمار
چومتا رہتا نَعلین، سرکار کے
کاش ہوتا میں طیبہ کا گرد و غُبار
آگیا حج کا موسِم قریب آگیا
مجھ پہ بھی ہو کرم میرے پروردگار
سندھ کے باغ آنکھوں میں جچتے نہیں
اب دکھا دو عَرَب کے حسیں ریگزار
ہم سبھی ان کے دَربارِ دُربا ر میں
جائیں گے اِنْ شَآءَ اللہ ضَرور ایکبار
از طفیلِ بِلال و اُوَیس و رضا
دو دلِ بے قرار آنکھ دو اشکبار
مجھ کو آلامِ دُنیا سے آزاد کر
میں تِرے غم میں روؤں شہا زار زار
آپ کا نام سنتے ہی سرکار کاش
دل مچلنے لگے جان ہو بے قرار
میرا سینہ مدینہ بنا دیجئے
قلب کی ہو مدینہ مدینہ پکار
گر پڑو اُن کے قدموں میں روتے ہوئے
عاصیوں پر بھی ان کو تو آتا ہے پیار
اب تو آجایئے مجھ کو چُھڑوایئے
ہر طرف سے گناہوں کا ہوں میں شکار
میرے آقا! سِرہانے چلے آئیے
جاں بَلَب کب تلک اب کرے انتِظار
میری آمد ہو طیبہ میں اے کاش یوں
چاک سینہ ہو دامن بھی ہو تارتار
بھائیو، بہنو اپناؤ تم سُنّتیں
خوش ہو رب تم سے راضی شہِ نامدار
موت بدکار کو آئے طیبہ میں پھر
ہو بقیعِ مبارَک میں اِس کا مزار
یاخدا بے سبب بخش عطّارؔ کو
اِس کو جنّت میں دیدے نبی کا جَوار
شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری
کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش