یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے

یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے ، بہت دن بیتے

اس دوری سے تو بہتر تھا اور نہ اب ہم جیتے ، بہت دن بیتے


کیسا زمانہ کیسی فضا تھی ان کا کرم تھا ان کی عطا تھی

شام سویرے ، سبز سنہرے دید کی جام تھے پیتے ، بہت دن بیتے


یاد ہے اب تک سارا منظر ، شام و سَحر یا رات میں اکثر

بیٹھ گئے تھے بابِ کرم پر ، چاک گریباں سیتے ، بہت دن بیتے


وحی ثناء بن بن کے اُترتی دل کے حِرا میں نعت محمد

صحن مسجد نبوی میں ہم روز یہ جام تھے پیتے ، بہت دن بیتے


آس بندھی ہے پاس بلالو، ڈوب نہ جاؤں مجھ کو بچا لو

آس بندھے اور بندھ کر ٹوٹے ، ایسے حال میں جیتے ، بہت دن بیتے


ہار گیا تُو عشق کی بازی ، کیسے ادیبؔ وہ ہوں گے راضی

اب و ہ بلالیں تو ہم سمجھیں ، ہار کے بازی جیتے ، بہت دن بیتے

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

جیتا ہوں مرے آقا

حبیبِ ربِ کریم آقاؐ

مٹتے ہیں جہاں بھر کے آلام مدینے میں

کملی والا میرا نبی ہے

ہر ابتدا دی ابتدا میرے حضور نیں

مینوں لے چلو اوہناں راہواں تے سوہنے

مدینے پہ یہ دِل فِدا ہو رہا ہے

پھر گلستانِ تخیّل میں کھلا تازہ گلاب

شاہد ہے خُدا بعد میں کائنات بنی ہے

جیہڑے محرم راز حقیقت دے