مدینے پہ یہ دِل فِدا ہو رہا ہے

مدینے پہ یہ دِل فِدا ہو رہا ہے یہ رحمت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے

تِرا نام لے لے کے ہم جی رہے ہیں عبادت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے


گنہگار پروہ کرم کر رہے ہیں بِھکاری کا اپنے بھرم رکھ رہے ہیں

شفیعِ دو عالم کی ہم عاصیوں پر عنایت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے


گیا جو بھی منگتا تہی دست در پر دو عالم کی نعمت وہ آیا ہے لیکر

بدلتے ہیں طیبہ میں سَب کے مقدر سخاوت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے


تصدّق کروں جان قرباں کروں دلِ وہی ہیں مِری آرزؤں کا حاصل

جِسے اہلِ دِل کہہ رہے ہیں مدینہ وہ جنت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے


کِسی شے کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے یہ ہے سیر چشمی قناعت نہیں ہے

مِرے دل میں ہے جاگزیں انکی الفت یہ دَولت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے


بلا لو گنہگار خالدؔ کو در پر کرم ہو کرم ہو کرم بنَدہ پَرور!

مِرے واسطے یہ جُدائی کا اک پل قیامت نہیں ہے تو پھر اَور کیا ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

نور کی شاخِ دلربا اصغر

مصطفیٰ، شانِ قُدرت پہ لاکھوں سلام

چار سُو نُور کی برسات ہوئی آج کی رات

سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے

نبیؐ کی یاد ہے سرمایہ غم کے ماروں کا

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

دو عالم کا امداد گار آ گیا ہے

کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر اللہ اکبر