ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

ماہِ رمضاں کی فرقت نے مارا

دل ہوا جاتا ہے پارا پارا


تیری الفت تھی ہر اک کے دل میں

تیری عظمت تھی ہر اک کے دل میں


تو نے ہم سے کیا کیوں کنارا

دل ہُوا جاتا ہے پارا پارا


تو نے اُجڑے ہُوئے گھر بسائے

تو نے روتے ہُوئے دل ہنسائے


تیرے بِن ہوگا کیسے گزارا ؟

دل ہُوا جاتا ہے پارا پارا


گھر میں لائیں گے اب کس کی برکت

ہم پہ برسے گی اب کس کی رحمت


پھر بھی دیدار دینا خدارا

دل ہُوا جاتا ہے پارا پارا


تیرے شیدائی اب کیا کریں گے

تیری فرقت میں جل جل مریں گے


تیرا جانا ہے کس کو گوارا !

دل ہُوا جاتا ہے پارا پارا


اعظؔم خستہ رو رو پکارے

پھر بھی آئیں گے یہ دن ہمارے


جاؤ حافظ خدا ہو تمھارا !

دل ہُوا جاتا ہے پارا پارا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

پانج پیروں کی جس پر نظر پڑ گئی اس کا رشتہ مدینہ سے جُڑ سا گیا

نوریو آؤ ذرا قاسمی جلسہ دیکھو

دل سے مِرے دنیا کی محبت نہیں جاتی

عزیزوں کی طرف سے جب مِرا دل ٹوٹ جاتا ہے

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

مجھ کو اللہ سے محبَّت ہے

کیوں ہیں شاد دیوانے! آج غسل کعبہ ہے

مرکزِ رازِ حقیقت آستانِ بو الحسین

ہم کو اللہ اور نبی سے پیار ہے

عِشق مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن