کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

کتنے لوگ بچ جاتے، زندگی میں پل جاتے


کوہ طور، ہم نے بھی ایک شعلہ دیکھا ہے

نعت خوانِ احمد تھے ورنہ ہم بھی جل جاتے


وہ منیٰ کا منظر کیا کوئی بھول پائے گا

ماں کی فکر تھی ورنہ بچ کے ہم نکل جاتے


رب نے ہم کو بخشا تھا ایک موقع خدمت کا

اپنی جاں بچانے کو کیوں بھلا پھسل جاتے


رب کا شکر کرتے ہیں والدہ رہیں محفوظ

وہ ضرور جل جاتیں ہم اگر نہ جل جاتے


ہاں حواس پر ہم نے جلد پا لیا قابو

ورنہ آگ سے تن کے زاویے بدل جاتے


ایک سانحہ کہیے یا کہ پھر سزا کہیے

کاش ہم کو عبرت ہو کاش ہم سنبھل جاتے


دائمی سند نظمی تم کو مل گئی حج کی

مہر تم پہ کیا لگتی بچ کے گر نکل جاتے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

فروری 1946 کی یاد میں

خوفِ گنہ میں مجرم ہے آب آب کیسا

تاریخ خانوادہ برکاتیہ

فضل سے مولیٰ کے خُرّم حافظِ قرآں بنا

شاہِ برکت کی برکات کیا پوچھیے جس کو جو بھی ملا ان کے گھر سے ملا

زائرو پاسِ اَدب رکھو ہَوَس جانے دو

چاہت میں ان کی، ایسا سراپا مرا رہے

سانوں آن بچونی آندی اے سانوں ملک بچونا اوندا اے

مَسرَّت سے سینہ مدینہ بنا تھا

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں