زائرو پاسِ اَدب رکھو ہَوَس جانے دو

زائرو پاسِ اَدب رکھو ہَوَس جانے دو

آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ان کو ترَس جانے دو


سُوکھی جاتی ہے اُمید غربا کی کھیتی

بُوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو


پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں

نغمۂ قُم کا ذرا کانوں میں رَس جانے دو


ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو

گٹھریاں توشۂ اُمید کی کَس جانے دو


دِید گل اور بھی کرتی ہے قِیامت دل پر

ہمصفیرو ہمیں پھر سُوئے قفس جانے دو


آتِش دِل بھی تو بھڑکاؤ ادب داں نالو

کون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو


یوں تنِ زار کے درپے ہوئے دل کے شعلو

شیوۂ خانہ براندازیِ خس جانے دو


اے رضاؔ آہ کہ یوں سہل کٹیں جرم کے سال

دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

زندگی اپنے لہُو کا نام ہے

بعدِ رَمضان عید ہوتی ہے

جُھکتے ہیں سَرکَشوں کے شب و روز سَر یہاں

قربانیوں کا درس دیا ہے بشیر نے

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

سانوں آن بچونی آندی اے سانوں ملک بچونا اوندا اے

دل کی کَلیاں کِھلیں قافِلے میں چلو

رخِ صفی پہ یہ سہرا سجا سبحان اللہ

کاش! پھر مجھے حج کا، اِذن مل گیا ہوتا

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے