میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے

مجھے کیا خبر نہیں ہے کہ مجھے کہاں خبر ہے


میری زندگی میں کس نے کیا انقلاب برپا

نہ ہے شام شام اپنی تہ سحر میری سحر ہے


ہے شب فراق روشن جلے دیپ آنسوؤں کے

نہ ہو مستئِ فنا جب کہاں ہستیِ سفر ہے


تیرا نام لے رہے ہیں تیرے راستے کے رہزن

ہے فریب چارہ سازی کہ فساد چارہ گر ہے


کوئی عزمِ کوہکن ہے کوئی رازقِ وطن ہے

ہے حدیثِ حُسنِ شیریں کہ یہ خسرو ِدگر ہے


نہ غنائے قیصری ہے نہ ادائے دلبری ہے

نہ وہ بندہ پروری ہے نہ وہ شوخئ نظر ہے


کوئی بدگماں حرم سے کوئی پاسباں حرم کا

یہ زوال رہبری ہے کہ کمَالِ رہبَر ہے


یہ امیرِ کارواں ہے وہ معینِ بے کساں ہے

نہ اسے میری خبر ہے نہ اسے تیری خبر ہے


میں کہاں ہوں تو کہاں ہے کہ سکوتِ دو جہاں ہے

نہ ہے دل میں درد باقی نہ فغاں میں اب اثر ہے


کوئی مر رہا ہے شاید کہ ہجومِ کر گساں ہِے

میرا گھر جلانے والے مجھے تیرے گھر کا ڈر ہے


تجھے کیا خبر نہیں ہے کہ بدل گیا زمانہ

پھرے آفتاب اُلٹا ، وہ گھڑی قریب تر ہے


تیری یاد کا ولی ہوں کہ میں واصِفؔ علی ہوں

میری انتہا یہی ہے تیرے سنگِ در پہ سر ہے

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

جوبنوں پر ہے بہارِ چمن آرائی دوست

اے کہ تُو رگ ہائے ہستی میں ہے مثلِ خُوں رواں

مسلمانوں نہ گھبراؤ کورونا بھاگ جائے گا

مثنویِ عطار- ۳

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

آؤ ہم بھی اپنے گرد لکیریں کھینچیں

مَدنی چَینل سنّتوں کی لائے گا گھر گھر بہار

وہ اُٹھ گیا کہ تکلّم تھا جن کا نعتِ رسول

دل کی کَلیاں کِھلیں قافِلے میں چلو

مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے