جسے جو چاہیے اے کبریا دے

جسے جو چاہیے اے کبریا دے

مجھے بس الفتِ خیر الورا دے


جگر کو سوز دے دل کو تڑپ دے

نظر کو تابِ دیدِ مصطفیٰ دے


اسیرِ لالہ و گل ہوگئے ہیں

خرد مندوں کو کچھ اپنا پتہ دے


عطا کر مجھ کو وہ عرفان و مستی

جو مجھ کو مجھ سے بیگانہ بنادے


جبیں سا ہیں جہاں شاہانِ عالم

مجھے بھی وہ درِ اقدس دکھا دے


رہے عکسِ جمالِ یار جس میں

مرے دل کو وہ آئینہ بنادے


جب اعظم ہر جگہ موجود ہے وہ

کوئی اس کا پتہ دے بھی تو کیا دے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

صبحِ شبِ ولادت بارہ ربیع الاول

ریت صحراؤں کی‘ تپتی ہے تو چِلّا تی ہے :

قرب کا راستہ ہے دعا

ہر فرد پوچھتا ہے قیصر جہاں کہاں ہیں ؟

فروزاں انجمن سے جارہا ہوں

مجھے نہ مژدہء کیفیتِ دوامی دے

سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَالٖ

مَیں ماٹی کی مورتی ، ماٹی میرا دیس

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ