جسے جو چاہیے اے کبریا دے
مجھے بس الفتِ خیر الورا دے
جگر کو سوز دے دل کو تڑپ دے
نظر کو تابِ دیدِ مصطفیٰ دے
اسیرِ لالہ و گل ہوگئے ہیں
خرد مندوں کو کچھ اپنا پتہ دے
عطا کر مجھ کو وہ عرفان و مستی
جو مجھ کو مجھ سے بیگانہ بنادے
جبیں سا ہیں جہاں شاہانِ عالم
مجھے بھی وہ درِ اقدس دکھا دے
رہے عکسِ جمالِ یار جس میں
مرے دل کو وہ آئینہ بنادے
جب اعظم ہر جگہ موجود ہے وہ
کوئی اس کا پتہ دے بھی تو کیا دے
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی