فروزاں انجمن سے جا رہا ہوں

فروزاں انجمن سے جارہا ہوں

شبِ تاریک سے گھبرا رہا ہوں


مُجھے اِ ک سانس نے گُل کر دیا ہَے

مَیں طوفانوں میں بھی جلتا رہا ہوں


ادھوری داستانِ زندگی کو !

سکوتِ مرگ میں دُہرا رہا ہوں


بدن کی چار دیواری کے اندر ،

مَیں اپنی روح چنواتا رہا ہو ں !


ہر اِ ک انسان سے تھا پیار مُجھ کو

مَیں ہر انسان سے ڈرتا رہا ہوں


جہاں پتّھر برستے تھے وہاں بھی ،

مثالِ آئینہ رہتا رہا ہوں !


مَیں دریا کی جواں موجوں کے اندر

نہ پُوچھو کس قدر پیاسا رہا ہوں


برنگِ قطرہء شبنم گُلوں پر !

کمالِ ضبط سے ٹھہرا رہا ہوں !


نگاہوں کے چھلکتے ساغروں کو ،

مَیں اِک دیوانگی کہتا رہا ہوں !


چمن کی بے زباں کلیوں کے دل میں

مَیں دھڑکن کی طرح سہما رہا ہوں


گُلوں کے چاک بھی دیکھے ہیں مَیں نے

مَیں کا نٹوں سے بھی وابستہ رہا ہوں !


بچھا کرتی تھیں جو رستے میں میرے

مَیں اُن نظروں سے بھی گِر تا رہا ہوں


جفا پرورہیو لوں سے ہمیشہ

وفا کے تذکرے سُنتا رہا ہوں


مَیں ہر ہمراہ سے دامن بچا کر !

اکیلے راستہ چلتا رہا ہوں !


سفر در پیش تھا صحرا کا مُجھ کو

مَیں اپنے سائے سے بچتا رہا ہوں


نگاہوں کی صدائیں بھی سُنی ہیں ،

دلوں کا حال بھی پاتا رہا ہوں


مُجھے سُورج سے بھی نسبت رہی ہَے

مَیں کِر نوں کی طرح بکھرا رہا ہوں


فلک سے ٹوٹنے والے ستارے

مَیں خاکِ راہ سے چُنتا رہا ہوں


کسی غم کا بنا ہوں مَیں نوالہ !

کسی غم کو ئیں خود کھاتا رہا ہوں


جنہیں مَیں نے کبھی اپنا نہ سمجھا ،

انہیں مَیں یاد بھی کرتا رہا ہوں !


سبب پُو چھو نہ اِ س بیگانگی کا !

نہ پُوچھو کِس لیے تنہا رہا ہوں


مُجھے فطرت نے بخشی چشمِ بینا ،

مَیں رنگوں کی صدا سُنتا رہا ہوں !


کِسی دل کی بُجھا کر آگ واصؔف !

مَیں اپنی آگ میں جلتا رہا ہوں !

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ چراغ

دیگر کلام

پائے گا یونس رضا عُمرے کی خیر اُمّید ہے

صبحِ شبِ ولادت بارہ ربیع الاول

یادِ وطن سِتم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

خرد کا اصل یہی ہے کہ ہے رجیم و لعین

یَلَّلے خوش آمدَم در کُوئے بغداد آمدَم

بنا ہے سبطین آج دولہا سجائے سہرا نجابتوں کا

چار مصرعے تیری ممتا پر مرے فن کا نچوڑ

سنَّت کی بہار آئی فیضانِ مدینہ میں

مرکزِ رازِ حقیقت آستانِ بو الحسین

بو لنے دو