خوفِ گنہ میں مجرم ہے آب آب کیسا

خوفِ گنہ میں مجرم ہے آب آب کیسا

جب رب ہے مصطفیٰ کا پھر اِضطراب کیسا


مجرم ہوں رُوسیہ ہوں اور لائقِ سزا ہوں

لیکن حبیب کا ہوں مجھ پر عتاب کیسا


سورج میں نور تیرا جلوہ ترا قمر میں

ظاہر تو اس قدر ہے اس پر حجاب کیسا


دامانِ مصطفیٰ ہے مجرم مچل رہے ہیں

دارُالاماں میں پہنچے خوفِ عذاب کیسا


مرقد کی پہلی شب ہے دولہا کی دِید کی شب

اس شب پہ عید قرباں اس کا جواب کیسا


پڑھتا تھا جس کا کلمہ پایا انہیں نکیرو

ہو لینے دو تصدق اس دم حساب کیسا


سالکؔ کو بخش یارب گو لائقِ سزا ہے

وہ کس حساب میں ہے اس کا حساب کیسا

شاعر کا نام :- مفتی احمد یار نعیمی

کتاب کا نام :- دیوانِ سالک

دیگر کلام

قافِلہ آج مدینے کو روانہ ہوگا

اٹھ شیرا پاکستان دیا ہن جاگ تے ہو ہشیار اڑیا

کیسا چمک رہا ہے یہ پنجتن کا روضہ

مرکزِ رشد و ہدایت ہے یہ عرفان العلوم

یا اِلٰہی ذیلِ ایں شیراں گِرفتم بندہ را

نوری آستانے میں ہر قدم پہ برکت ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

ہے اوج پر آج ان کی رحمت بڑے خزانے لٹا رہی ہے

یارب ‘ مرے وطن کو اِک ایسی بہار دے