ہے اوج پر آج ان کی رحمت بڑے خزانے لٹا رہی ہے

ہے اوج پر آج ان کی رحمت بڑے خزانے لٹا رہی ہے

نگاہِ نوری کا پھر کرم ہے نگاہِ نوری پلا رہی ہے


شراب نوری ہے جام نوری ہے ساقی نوری ہیں رند نوری

ہے نور ہی نور بزمِ نوری عجیب مستی سی چھا رہی ہے


ہے نوریوں کا ہجوم ہر سو فضا میں ہے آج نوری خوشبو

زمینِ مارہرہ تیرے صدقے کہ نور سے جگمگا رہی ہے


کیا ہے پیرِ مغاں نے وعدہ نہ جائے گا کوئی آج پیاسا

چلو چلو نوریو چلو پھر نگاہِ نوری پلا رہی ہے


نظر نظر میں ہے نوری جلوہ جگر جگر میں ہے نوری جذبہ

یہ نوری تقریب زندگی کے نئے سلیقے سکھا رہی ہے


پکڑ کے نوری میاں کی چادر نہ جانے کتنے مراد پائیں

ولی ہمیشہ حیات میں ہے مزارِ نوری بتا رہی ہے


وسیلہ نوری میاں کالے کر مرادیں اللہ سے مانگتے ہیں

کسی کے در پر نہ جائیں نظمی یہ نوریوں کی ادا رہی ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ملت کے نگہباں تیرا اللہ مددگار

زمین آدھی تاریک ہے

یادِ وطن سِتم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

دوشِ رحمت پہ بار ہیں ہم لوگ

نہ میں شاعر نہ شاعر کی نوا ہوں

غزوہ بدر وہ تاریخ کا بابِ زرّیں

بہ حکمِ رب کریں گے مدحتِ سرکار جنت میں

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

آؤ ہم بھی اپنے گرد لکیریں کھینچیں