ہے اوج پر آج ان کی رحمت بڑے خزانے لٹا رہی ہے
نگاہِ نوری کا پھر کرم ہے نگاہِ نوری پلا رہی ہے
شراب نوری ہے جام نوری ہے ساقی نوری ہیں رند نوری
ہے نور ہی نور بزمِ نوری عجیب مستی سی چھا رہی ہے
ہے نوریوں کا ہجوم ہر سو فضا میں ہے آج نوری خوشبو
زمینِ مارہرہ تیرے صدقے کہ نور سے جگمگا رہی ہے
کیا ہے پیرِ مغاں نے وعدہ نہ جائے گا کوئی آج پیاسا
چلو چلو نوریو چلو پھر نگاہِ نوری پلا رہی ہے
نظر نظر میں ہے نوری جلوہ جگر جگر میں ہے نوری جذبہ
یہ نوری تقریب زندگی کے نئے سلیقے سکھا رہی ہے
پکڑ کے نوری میاں کی چادر نہ جانے کتنے مراد پائیں
ولی ہمیشہ حیات میں ہے مزارِ نوری بتا رہی ہے
وسیلہ نوری میاں کالے کر مرادیں اللہ سے مانگتے ہیں
کسی کے در پر نہ جائیں نظمی یہ نوریوں کی ادا رہی ہے
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا