ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

ایسی دنیا سے ہمیں کوئی توقع کیا ہو

جس میں وجدان پہ ہو عقل کی ضد کا الزام


عقل انسان کے پیکر میں تو محبوس نہیں

اور وجدان ہے اس عقل کی پرواز کا نام


سوچتے سوچتے آجاتے ہیں ایسے پل بھی

جب پگھل جاتا ہے یہ عالمِ اشیا کا نظام


اور ہم لوگ خلا تا بہ خلا دیکھتے ہیں

جس طرف دیکھتے ہیں ‘ صرف خدا دیکھتے ہیں

شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی

کتاب کا نام :- انوارِ جمال

دیگر کلام

جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

صبحِ شبِ ولادت بارہ ربیع الاول

ذوالفقار حیدر کے سر جو چھا گیا سہرا

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

اَنبیا کو بھی اَجل آنی ہے

صورت مت بھولنا پیا ہماری

ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں

رُخ دن ہے یا مہرِ سَما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

یہ پہلی شب تھی جدائی کی

رمضان کا مہینہ ہے ایماں سے منسلک