ہمارے یہ روز و شب عجب ہیں
کہ روزِ روشن پہ تیرگی کا گمان ہوتا ہے
اور شبِ تیرہ کے کناروں سے
جانے کتنے ہزار خورشید جھانکتے ہیں !
طلوع کے سارے منظروں پر
غروب کے سائے چھا رہے ہیں !
غروب کی سب شکستگی
اِک طلوع کے انتظار میں سانس روکے بیٹھی ہے !
ساری تقویم کو تغیر کا سامنا ہے
تمام اقدار
سب روایات
اپنے سانچوں کو توڑ دینے کے ایک آشوبِ مستقل میں اسیر ہیں !
اور جتنے انسان زندہ ہیں ۔۔۔ دم بخود کھڑے ہیں
جو مرچکے ہیں
وہ ریگ زار ِ عدم کے ٹیلوں پہ گڑ گئے ہیں
وہ منتظر ہیں
کہ پتھروں سے گلاب پھوٹیں
ہواؤں میں روشنی بہے
بارشوں میں موتی گریں
خزاں خوشبوئیں لٹائے !
وہ منتظر ہیں
کہ آسمانوں کے دَر کھلیں
ان گنت فرشتے اُمڈ پڑیں
اور زمین پر سجد ہ ریز ہوتے ہی
آسمانوں کو لَوٹ جانا ہی بھول جائیں !
تمام موسم بدل رہے ہیں
تمام معیار مٹ رہے ہیں
تمام افکار منقلب ہیں
جو سر بر آوردہ تھے
وہ سر در گریباں بیٹھے ہیں
اور وہ جو کہ خاک بر سر تھے
اس قدر سر بلند ہیں
جیسے اپنے قد سے
زمین اور آسماں کے مابین کی مسافت کو نا پتے ہیں !
وہ آہنی در
جو نصب تھا فرش و عرش کے درمیان
آخر پگھل رہا ہے !
تقدس اور احترام کے مرکزوں سے پہرہ ہٹا ہوا ہے
خدا سے انساں کا ربط
سجدے سے آگے بڑھ کر
معانقے میں بدل رہا ہے
شاعر کا نام :- احمد ندیم قاسمی
کتاب کا نام :- انوارِ جمال