مثنویِ عطار- ۲

بے وفا دنیا پہ مت کر اِعتبار

تُو اچانک موت کا ہوگا شکار


موت آکر ہی رہے گی یاد رکھ!

جان جا کر ہی رہے گی یاد رکھ!


گر جہاں میں سو برس تُوجی بھی لے

قبر میں تنہا قِیامت تک رہے


جب فِرِشتہ موت کا چھا جائے گا

پھر بچا کوئی نہ تجھ کو پائے گا


موت آئی پہلواں بھی چل دیئے

خوبصورت نوجواں بھی چل دیئے


دنیا میں رہ جائے گا یہ دبدبہ

زور تیرا خاک میں مل جائے گا


تیری طاقت تیرا فن عُہدہ تِرا

کچھ نہ کام آئے گا سرمایہ ترا


قبر روزانہ یہ کرتی ہے پکار

مجھ میں ہیں کیڑے مکوڑے بیشمار


یاد رکھ میں ہوں اندھیری کوٹھڑی

تجھ کو ہوگی مجھ میں سُن وَحشت بڑی


میرے اندر تُو اکیلا آئے گا

ہاں مگر اعمال لیتا آئے گا


نر م بستر گھر پہ ہی رہ جائیں گے

تجھ کو فرشِ خاک پر دفنائیں گے


گھپ اندھیری قبر میں جب جائے گا

بے عمل!بے انتِہا گھبرائے گا


کام مال و زر نہیں کچھ آئے گا

غافل انساں یاد رکھ پچھتائے گا


جب ترے ساتھی تجھے چھوڑ آئیں گے

قبر میں کیڑے تجھے کھا جائیں گے


قبر میں تیرا کفن پھٹ جائے گا

یاد رکھ نازک بدن پھٹ جائے گا


تیرا اک اک بال تک جھڑ جائے گا

خوبصورت جسم سب سڑ جائے گا


آہ! اُبَل کر آنکھ بھی بہ جائے گی

کھال اُدھڑ کر قبر میں رہ جائے گی


سانپ بچّھو قبر میں گر آگئے!

کیا کرے گا بے عمل گر چھا گئے!


گورِ نیکاں باغ ہوگی خُلد کا

مجرِموں کی قبر دوزخ کا گڑھا


کِھلکھلا کر ہنس رہا ہے بے خبر!

قبر میں روئے گا چیخیں مار کر


کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی


وقتِ آخر یاخدا! عطارؔ کو

خیر سے سرکار کا دیدار ہو

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

غم کے بادَل چھٹیں قافلے میں چلو

جو محمد ہیں مذمم ان کو کیا کر پائے گا

راتوں کی بسیط خامشی میں

خدایا!

خلد کےنشے میں غلطان نظر آتے ہیں

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

میں ہی شمع بن کے جلتا ہوں مزارِ دوست پر

ایک شعر

قافِلہ آج مدینے کو روانہ ہوگا

میں ایک رات گرفتار تھا حرارت میں