میں ایک رات گرفتار تھا حرارت میں
ہر ایک پل تھا اضافہ مرض کی شدت میں
تبھی خیال یہ آیا کہ مر رہا ہوں میں
تو کیوں مروں نہ میں فکرِ سخن کی حالت میں
یہ سوچتے ہی قلم میں نے ہاتھ میں پکڑا
اور اٹھ کے بیٹھ گیا بسترِ علالت میں
قلم کو میرے زباں مل گئی بحکمِ خدا
وہ مجھ سے گویا ہوا احسنِ فصاحت میں
کہا قلم نے یہ مجھ سے ارے او نظمی سن
ہوں آدھوں آدھ کا حق دار تیری شہرت میں
تو سوچتا تھا میں لکھتا تھا نعتیں آقا کی
دماغ تیرا تھا میری زباں تھی حرکت میں
میں بولا اے مرے محسن مرے قلم سچ ہے
کلیدی ہے ترا کردار میری شہرت میں
مگر تو بھول گیا اپنے زعم میں اک بات
کہ تجھ کو کون چلاتا تھا نعت کی گت میں
قلم تو تُو ہی ہے رشدی کے پاس بھی لیکن
تو کیسے ساتھ نبھاتا ہے اُس خباثت میں
قلم تُو نظمی کا ہے کیسے بھول جاتا ہے
تو جب چلے گا تو میری ہی بادشاہت میں
تُو میرے ہاتھ سے آگے تو جا نہیں سکتا
کہ میری انگلیاں حاوی ہیں تجھ پہ سبقت میں
تو میری مرضی بنا کچھ بھی لکھ نہیں سکتا
اور ہے رضا میری نعتِ شہِ رسالت میں
ہے میرا ہاتھ مرے دل کے قبضے میں پورا
ہے میرا دل شہِ جنّ و بشر کی خدمت میں
یہ دل ہے نظمی کا رشدی لعین کا تو نہیں
تجھے تو چلنا سدا حق کی ہی حمایت میں
قلم قلم ہی رہے گا مگر یہ بھی حق ہے
چلے گا راج دھنی کا ہر ایک حرکت میں
قلم نے خندہ لبی سے کہا یہ پھر مجھ سے
یہ سچ ہے تو ہے دھنی میرا رب کی خلقت میں
ترے چلائے سے چلتا ہوں میں اور آئندہ
ترے چلائے سے چلتا رہوں گا مدحت میں
قلم بنوں کبھی رشدی کا میں خدا نہ کرے
ہو زندگی مری پوری نبی کی خدمت میں
تو نعتیں سوچ میں لکھوں لکھے ہی جاؤں میں
نہ تیری سوچ رکے، میں رکوں نہ حرکت میں
تو آج تک مجھے لکھنے کا حکم دیتا تھا
یہ میرا حکم ہے لکھ اب مری ہدایت میں
کوئی ادا کرے کیسے نبی کی نعت کا حق
مثالِ شمع زباں صرف ہو گو مدحت میں
خدا کے بندے ہیں پر دو جہاں کے آقا ہیں
وہی ہیں احمدِ مختار رب کی حکمت میں
انہیں کو زیبا ہے سرتاج، راج اور معراج
انہیں کے قدموں کی برکت جہانِ رنگت میں
عبادتوں کے علاوہ بہت سے نیک اعمال
خدا نے بخشے انہیں ایک شب کی دعوت میں
انہیں کی ذات ہے سرچشمہء حیات جہاں
ہیں تاجداروں کے سرخم انہیں کی خدمت میں
رموزِ ذاتِ محمد نہاں کیے رب نے
عیاں وہ خلق پہ ہوں عرصہء قیامت میں
یہ بات طے ہے کہ ان کے سوا شفیع نہیں
فرید ہوں گے وہ اس رتبہء شفاعت میں
انہیں پہ بابِ ارم سب سے پہلے وا ہوگا
انہیں کے امتی جائیں گے پہلے جنت میں
نظر نہ آقا کے رخ سے ہٹے گی بھولے سے
رہیں گے ہم تو بڑے مست مست جنت میں
بس ایک بات میں آخر میں کہہ دوں اے نظمی
بڑا مزہ آیا مجھ کو تمہاری حجت میں
میں آدھوں آدھ کا حق دار کیسے ہو جاتا
اگر چلاتے نہ تم دین کی حمایت میں
میں اس قلم سے بھی بے زار ہوں یقیں جانو
پھنسا ہوا ہے جو رشدی لعین کی لعنت میں
زباں زباں ہے قلم ہے وہی قلم نظمی
جو جب چلے تو چلے رب کی ہی اطاعت میں
ہے رب کا شکر کہ تم کو بنایا رب میرا
یہ ناز میرا رہے گا خدا کی نعمت میں
چلاؤ خوب چلاؤ مجھے تمہیں حق ہے
میں کام دین کے آؤں تمہاری معیت میں
تمہیں دماغ چلاؤگے اور مجھ کو بھی
تو دوہرا حصہ ملے گا خدا کی سنّت میں
ثواب کرنے پہ طرفین اجر پائیں گے
ثواب کا ہے یہی فلسفہ شریعت میں
تمہارے صدقے میں مجھ کو بھی بھیک مل جائے
تو میں بھی سمجھوں کہ ہوں بادشاہ قسمت میں
اٹھا کے چوم لیا میں نے پھر قلم اپنا
مرے رفیق مرے رازدار ہر مت میں
تو میرے ہاتھ میں جب سے ہے جب میں بچہ تھا
مجھے پتہ نہ تھا کیا سر ہے تیری خلقت میں
کھلونا جان کے میں پھینکتا پھرا تجھ کو
کبھی رکھا تجھے بتیس کی امانت میں
پھر ایک دن مرے استاد نے پکڑ کر ہاتھ
دیا تجھے مری انگشت کی امانت میں
جو پہلا لفظ لکھا میں نے تھا وہ اللہُ
مرے قلم کا بھی ایماں خدا کی وحدت میں
پھر اس کے بعد لکھا نام جانِ رحمت کا
کہ جن کے نور سے آیا ہے نور خلقت میں
الف لکھا، لکھی حا اور پھر بنائی میم
بنائی دال پھر اس اولیں عبارت میں
الف ہے مثل قیام، حا رکوع، سجدہ میم
ہے دال قعدہ کی صورت ہر ایک رکعت میں
ہے نام کتنا حسیں کتنی برکتوں والا
حروف جس کے ہیں سرِّ نہاں عبادت میں
قلم اے میرے قلم، مجھ سے روٹھنا نہ کبھی
کبھی کمی نہ ہو میری تری محبت میں
میں شعر سوچوں تو قرطاس پر اتار اسے
کہ کاروبار رہے مشترک معیشت میں
مجھے ثواب ملے اس میں تیرا آدھا ہو
ترا ثواب ملے مجھ کو نصف قیمت میں
الٰہی میرے ارادوں کو دے عمل کا لباس
مرے قلم کو چلا نعت ہی کی صنعت میں
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا